نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
ناول کی پچھلی اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں

ڈریٹن کو ہوش آیا تو اس نے خود کو غار کے فرش پر پایا۔ وہ بیٹھنے لگا تو درد کے مارے اس کے منھ سے چیخ نکل گئی۔ اس نے آہستہ آہستہ پہلے دایاں ہاتھ اٹھایا، پھر بایاں اور دونوں ٹانگیں۔ پھر خوش ہوا کہ بدن میں کچھ ٹوٹا نہیں تھا۔ اس نے غار کے سرے کی طرف دیکھا تو یہ ایک ڈھلوان راستہ تھا۔ وہ اٹھنے لگا تو اس کے ساتھ ہی تمام بدن سے ٹیسیں بھی اٹھنے لگیں۔ ہر ٹیس پر اس کے منھ سے عجیب و غریب قسم کی آوازیں نکلتیں۔ اس نے کلائی پر بندھی گھڑی پر نظر دوڑائی تو پتا چلا کہ اسے بے ہوش ہوئے دو گھنٹے گزر چکے ہیں۔

’’پتا نہیں کون سی سرنگ محفوظ ہے ۔‘‘ وہ بڑبڑانے لگا: ’’میں یہاں سے نکل کر سب سے پہلے اس چڑیل اور اس کے تمام دوستوں کو موت کے گھاٹ اتاروں گا۔‘‘ غصے سے اس کی ناک کے نتھنے پھول پچک رہے تھے اور چہرہ سرخ ہو گیا تھا۔ اسے جزیرے کے کنارے پہنچنے کے لیے ایک گھنٹہ لگا۔ جھیل پر پہنچ کر اس نے ادھر ادھر دیکھا لیکن کشتی نظر نہیں آئی۔ اس نے غصے کے عالم میں پیر پٹخے اور پہلان کا نام لے کر چلایا: ’’اب تم بتاؤ پہلان، میں اس جزیرے سے کس طرح نکلوں؟‘‘
اگلے لمحے غیر متوقع طور پر جھیل کے گہرے پانیوں سے ایک گونجتی آواز اٹھی: ’’تیر کر جاؤ!‘‘
ڈریٹن بہت تلملایا لیکن کوئی چارہ نہیں تھا۔ اس سے بہ مشکل چلا جا رہا تھا، بہرحال وہ پانی میں اتر گیا، کمر تک پانی آیا تو اس نے غوطہ لگایا۔ پانی بہت ٹھنڈا تھا لیکن مرتا کیا نہ کرتا، تیرتے ہوئے جھیل پر کرنی پڑی۔ پانی سے نکل کر وہ بری طرح کپکپانے لگا، عادت کے مطابق اس کے منھ سے بڑبڑاہٹ نکلی: ’’ہائے یہ ٹیسیں … اب میں سیدھا اینگس کے گھر جاؤں گا اور ان سب کو موت کی نیند سلا دوں گا، اور وہاں بیٹھ کر گرم گرم چائے پیوں گا۔‘‘
وہ اینگس کے گھر کی طرف چل پڑا، اس کے قدموں تلے خشک پتے کڑکڑا رہے تھے اور خزاں کی ہواؤں نے اس کے گیلے کپڑے اس کے بدن کے ساتھ چپکا دیے تھے۔ جب وہ کھڑکی کے پاس پہنچ کر جھانک رہا تھا تو عین اسی وقت وہ تینوں منتر پڑھنے کے بعد نظروں سے اوجھل ہو گئے تھے۔
’’یہ تو نکل گئے۔‘‘ اس نے دانت کچکچائے۔ اس نے دیکھا کہ وہ سب آپس میں ہنسی مذاق کرنے لگے ہیں اور کیک اور پیسٹری سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ اس نے سوچا اگر میں اس گھر کو آگ لگا دوں اور ان سب کو جلا کر راکھ کر دوں تو ان کے ساتھ وہ جادوئی گولہ بھی ضائع ہو جائے گا۔ نہیں مجھے صبر سے کام لینا چاہیے، وہ وقت بھی آ جائے گا جب میں سب سے پہلے اس لڑکی فیونا کا تیاپانچہ کروں گا۔ وہ سوچتی ہے کہ میرا مقابلہ کر سکتی ہے، ہونہہ …!‘‘
اسی طرح کی باتیں سوچتا، وہ جون اور سوزان مک ایلسٹر کے گھر واپس پہنچ گیا۔ پچھلا دروازہ ایک لات سے کھولا اور اندر پہنچ کر گیلے کپڑے اتار کر پھینکنے لگا۔ نہانے کے بعد وہ کپڑوں کی الماریاں دیکھنے لگا تاکہ کچھ پہن سکے، اور جینز اور براؤن ٹی شرٹ کے ساتھ ساتھ ہائیکنگ بوٹ پسند کر کے پہن لیے۔ جون مک ایلسٹر کا سائز اس پر پورا آ گیا تھا۔ باتھ روم سے قینچیاں بھی مل گئیں، جن کی مدد سے اس نے بال تراش کر چھوٹے کر دیے اور کٹے ہوئے بال سِنک میں ڈال دیے۔ اس کے بعد کانوں سے بالیاں نکال کر آئینے میں اپنا سراپا دیکھا اور سوچنے لگا کہ اب وہ لوگ اسے نہیں پہچان سکیں گے۔ وہ سوچنے لگا کہ یہ تینوں اس بار کس جگہ پہنچے ہوں گے، کوئی ٹھنڈی جگہ نہ ہو، مجھے کوٹ بھی لے لینا چاہیے، دیکھنا تو چاہیے کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔ یہ سوچ کر اس نے ایک کوٹ کا انتخاب کیا، اسے پہنا اور جیب تھپتھپا کر رقم کی موجودگی کو محسوس کیا اور پھر منتر پڑھا۔ اگلے لمحے وہ غائب ہو گیا اور اس نے خود کو ایک دریا کے بیچ میں کھڑے پایا۔ اس نے کناروں پر نگاہیں دوڑائیں، وہاں شمال مغربی امریکا کے نہایت وحشی، بھورے بالوں والے ریچھ ادھر ادھر پھر رہے تھے!
(جاری ہے…)

Comments