نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
ڈریٹن کو سردی کے جھونکے نے موسم کا مزاج سمجھا دیا۔ اس نے کوٹ کی جیب سے اونی ٹوپی نکال کر ایسے جمائی کہ گردن بھی اس میں چھپ گئی۔ اس نے نگاہیں دوڑائیں تو کچھ فاصلے پر توقع کے عین مطابق وہ تینوں اسے نظر آ گئے۔ اس کے ہونٹوں پر زہریلی مسکراہٹ پھیل گئی۔ اس نے سوچا، چلو فیونا کو ذرا یہ تو سمجھا دوں کہ یہاں اس کے ساتھ کیا کچھ پیش آسکتا ہے۔ کیوں کہ وہ جانتا تھا کہ اب اس کو بھی جانوروں سے باتیں کرنے والی طاقت مل چکی ہے، اس لیے اس نے ایک وحشی ریچھ کو فیونا پر حملہ آور کروانے کا سوچا۔ اس نے دیکھا کہ ایک ریچھ فیونا کی طرف بڑھنے لگا ہے، اس نے ریچھ کو حکم دیا کہ جاؤ اور اس لڑکی کی آنکھیں اپنے پنجوں سے نکال کر پھینک دو!
فیونا اُس وقت گلیشیئرز کا تصور کر کے گھاس پر سے اٹھ کر کھڑی ہو گئی تھی اور گال سہلا رہی تھی جس پر مچھروں نے جا بہ جا کاٹ لیا تھا۔ وہ دریا کی طرف گئی اور ٹھنڈے، برفیلے پانی سے چہرہ دھویا تاکہ کاٹنے سے ہونے والی کھجلی کچھ کم ہو جائے۔ وہ جیسے ہی جھکی، اسے اپنے پیچھے لوگوں کے چلانے کا شور سنائی دیا۔ اس نے جلدی سے سر اٹھا کر دیکھا، ایک وحشی ریچھ اس کی طرف دوڑتا چلا آ رہا تھا اور اس کے دانتوں میں ایک سالمن مچھلی پھنسی ہوئی جھول رہی تھی۔ قریب آ کر وہ رکا اور پچھلی ٹانگوں پر کھڑا ہو کر بھیانک آواز میں دھاڑنے اور گرجنے لگا۔
اسے جبران کی آواز سنائی دی: ’’فیونا، بھاگو وہاں سے!‘‘ یہ کہہ کر وہ کیمرہ آنکھ سے لگا کر تصویر اتارنے لگ گیا۔ دوسری طرف فیونا جہاں کھڑی تھی وہاں بت بن گئی تھی۔ ریچھ کسی بھی لمحے اسے اپنے پنجوں میں جکڑ سکتا تھا۔ فیونا کو لگا کہ موت اس سے چند قدموں کے فاصلے پر آ گئی ہے اور اس بار وہ اپنا بچاؤ کرنا بھی بھول گئی۔ یکایک ریچھ نے دھاڑنا بند کر دیا اور وہ جھول کر پانی میں جا گرا۔ فیونا کو لگا کہ ریچھ اس پر آ رہا ہے، اس لیے وہ خوف کے مارے پیچھے کی طرف جا گری۔ دور کھڑا پارک رینجر، جس نے بے ہوش کرنے والا تیر پھینک کر ریچھ کو بے ہوش کر دیا تھا، دوڑتا ہوا آ گیا۔ اس کے ساتھ جبران اور دانیال اور دیگر لوگ بھی دوڑتے ہوئے آ رہے تھے۔
(جاری ہے…)

Comments