ایک زمانہ تھا جب دوستیاں اور تعلق کسی قسم کی نفرت اور عناد سے آلودہ نہیں تھے۔ عقیدے اور ذات پات، عہدہ و منصب، مالی حیثیت اور اس کی بنیاد پر سماج میں رُتبہ آپس میں تعلق استوار کرنے کا پیمانہ اور معیار نہیں ہوتا تھا بلکہ دوست احباب ایک دوسرے سے بے لوث محبّت کرتے تھے۔ مصیبت میں یا کوئی ضرورت پڑنے پر ساتھ نبھا کر خود کو وضع دار اور باظرف ثابت کرتے تھے۔
سید محمد ارتضیٰ المعروف ملّا واحدی دہلوی اردو کے صاحب ِطرز ادیب اور مشہور جیّد صحافی تھے جن کے قلم کی نوک سے نکلے یہ دو مختصر واقعات سچّی دوستی اور مذہبی رواداری کی مثال کے طور پر ہم یہاں نقل کررہے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:
"چیلوں کا کوچہ جہاں میرا گھر ہے، یہاں دو صاحب رہتے تھے۔ ایک محمد مرزا خاں، دوسرے عمو جان۔ ان دونوں نے بہت طویل عمریں پائی تھیں۔ محمد مرزا خاں کا تو لوگوں نے نوح نام رکھ دیا تھا اور عموؔ جان حضرت شاہ عبدالعزیزؔ رحمۃ اللہ علیہ کی گودوں کے کھیلے ہوئے تھے۔
شاہ عبدالعزیزؒ حضرت شاہ ولی اللہؒ کے فرزند تھے۔ شاہ ولیؔ اللہ جنہوں نے شہنشاہ اورنگ زیبؔ عالمگیر کے زمانے میں فتاویٰ عالمگیری کی تدوین میں حصہ لیا تھا۔ میں نے اپنے بچپن میں محمد مرزا خاں کو بھی دیکھا ہے اور عمو جان کو بھی۔ دونوں کے خاندان اب تک موجود ہیں اور دونوں کے دیکھنے والے مجھ سے بڑے ابھی زندہ ہیں۔ پہلے محمد مرزا خاں کی وضع داری اور دوستی کا نمونہ ملاحظہ فرمائیے۔
ایک ہندو سے ان کا بھائی چارہ تھا۔ انقلاب 1857ء کی ابتداء ہوچکی تھی کہ ہندو صاحب نے شادی رچائی۔ بارات بازاروں سے گزر رہی تھی کہ کچھ لوٹ مار کرنے والے آپہنچے۔ بارات کی بارات مع دولھا کے دُلہن کا ڈولا چھوڑ بھاگ گئی مگر محمد مرزا خاں نے چند اور ساتھیوں کی مدد سے دلہن کو بچایا اور لشتم پشتم دولھا کے مکان پہنچا دیا۔
عموؔ جان کا واقعہ اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز ہے۔ تاجرانہ دوستیوں کے دور میں اسے تسلیم کرنے میں تأمل ہوگا۔ عموؔ جان کی بھی ایک ہندو سے ملاقات تھی۔ وہ ہندو وکیل تھے۔ ان پر کسی کے قتل کا الزام لگ گیا۔ عموؔ جان نے الزام اپنے سَر لے لیا۔ پھر وکیل صاحب ان کے لیے جو کوشش نہ کرتے، تھوڑی تھی۔
عموؔ جان بالکل غریب آدمی تھے اور وکیل صاحب کا اقبال برابر ترقی کر رہا تھا۔ مگر مجھے ان کا عموؔ جان کے جھونپڑے میں آنا جانا خوب یاد ہے۔
محمد مرزاؔ خاں اور عمو جان تو صحیح معنوں میں اگلے وقتوں کے آدمی تھے۔ اگلے وقتوں کے آدمی وضع اور دوستی کو نبھانا ہنر سمجھتے تھے، اور نہ نبھانے کو عیب جانتے تھے۔ ایک محلے کے صرف دو آدمیوں کا ایک ایک واقعہ سنا دیا ہے، ورنہ 1857ء کے بہت بعد تک ایسے لوگوں سے سارا شہر بھرا پڑا تھا۔”