نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
ڈریٹن اس کے قریب سے تیزی کے ساتھ گزرا تھا، اور اس نے کالر اٹھایا ہوا تھا تاکہ فیونا اسے ٹھیک طور سے نہ دیکھ سکے۔ وہ فیونا کے ساتھ آنکھیں بھی ملانا نہیں چاہ رہا تھا اس لیے بس میں سر جھکا کر چڑھا تھا۔ جب ایک نوجوان جوڑا اس کے برابر میں بیٹھنے کے لیے آیا تو اس نے انھیں گھورا اور ہلنے سے انکار کر دیا۔ وہ مجبوراً دوسری سیٹ پر جا کر بیٹھ گئے۔ ڈریٹن نے آنکھیں بند کر لیں اور وائٹ ہارس تک کا یہ سفر برداشت کرنے لگا۔
جبران نے کیمرہ واپس فیونا کے بیگ میں رکھتے ہوئے کہا کہ وہ لیٹ گیا ہے لیکن اس میں عجیب بات کیا ہے؟ فیونا نے کہا: ’’مجھ پر ریچھ کا حملہ کوئی اتفاق نہیں تھا، ڈریٹن نے ضرور اسے مجھ پر حملے کا حکم دیا ہوگا۔‘‘
’’ڈریٹن … کیا وہ یہاں ہے؟‘‘ دانیال اس کا نام سن کر چونک اٹھا۔ ’’اس کی شکل و صورت کیسی ہے؟‘‘ فیونا بتانے لگی کہ اس کے بال لمبے سیاہ ہیں اور کانوں میں بالیاں لٹکی ہوئی ہیں۔ دانیال نے ایک نظر اس پر ڈال کر کہا کہ اس نے تو بالیاں نہیں پہنیں، اور بال بھی چھوٹے ہیں۔ جبران بولا کہ ہو سکتا ہے اس نے بال ترشوا لیے ہوں اور بالیاں بھی اتار دی ہوں، اہم بات یہ ہے کہ ہمیں اس پر نظر رکھنی چاہیے۔ دانیال نے پوچھا کہ اب وہ کہاں جا رہے ہیں، تو جبران نے جواب دیا: ’’یوکان کے کیپیٹل وائٹ ہارس، جو ایک بڑا شہر ہے اور جنوبی یوکان میں الاسکا ہائی وے پر واقع ہے۔‘‘
فیونا نے رینجر کو جبران کے قریب بیٹھتے دیکھ کر مسکرا کر کہا: ’’ایکسکیوز می سر!‘‘
رینجر نے مسکرا کر کہا: ’’میرا نام شَین جَینکن ہے۔‘‘
’’تو مسٹر شین، کیا یہاں آس پاس گلیشیئرز ہیں؟‘‘
’’گلیشیئرز ۔۔۔‘‘ شین نے حیران ہو کر دہرایا: ’’یہ ملک ہی گلیشیئرز کا ہے۔‘‘
’’آپ مجھے فیونا پکار سکتے ہیں، اور یہ جبران اور دانی ہے۔‘‘
’’تم تینوں کہاں سے آئے ہو؟ تمھارا لہجہ برطانوی طرز کا ہے۔‘‘
’’جی ہم اسکاٹ لینڈ سے آئے ہیں۔‘‘
’’اسکاٹ لینڈ … بہت خوب۔‘‘ شین بولا: ’’تو تمھارے والدین کہاں ہیں؟ اکثر والدین اپنے بچوں کو اجازت نہیں دیتے کہ وہ اکیلے وحشی ریچھوں کو دیکھنے نکل پڑیں۔‘‘
یہ سن کر تینوں کے پیٹ میں مروڑ شرو ہو گیا۔ یہ سوال ان کے لیے ہمیشہ بڑا پریشان ہوتا تھا، فیونا نے جلدی سے بات بنائی: ’’دراصل انھیں پیٹ میں کچھ گڑبڑ محسوس ہو رہی تھی، اس لیے وہ نہیں آئے اور ہمیں اس لیے آنے دیا کیوں کہ وہ ہم پر بہت بھروسا کرتے ہیں۔‘‘
’’او کے، تم گلیشیئرز کے بارے میں کیوں پوچھ رہی تھی؟ یوکان میں یوں تو بہت سارے ہیں لیکن یہاں سے دور ایک جگہ ہے جسے کلونی نیشنل پارک کہا جاتا ہے، یہ وادئ گلیشیئر کے نام سے مشہور ہے۔‘‘
فیونا نے کوئی جواب دینے کی بجائے الٹا سوال کر لیا: ’’کیا آپ کچھ اضافی رقم کمانا چاہیں گے؟‘‘ شین کے چہرے پر یہ سن کر خوشی کا رنگ بکھر گیا اور بولا: ’’کیوں نہیں، ضرور، بتاؤ تمھیں کیا چاہیے۔‘‘
’’ہمیں کلونی لے جائیں، ہم گلیشیئرز دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہمارے والدین برا نہیں منائیں گے، وہ ہمیشہ ہمیں اکیلے جانے دیتے ہیں۔‘‘
’’جی ہاں، میں تم تینوں کو لے جا سکتا ہوں۔‘‘ شین نے جواب دیا۔ ’’مجھے ایک جیپ کرائے پر لینی پڑے گی، اچھا خاصا کرایہ لگے گا۔‘‘
اس کے بعد وہ خاموشی سے وائٹ ہارس کی طرف سفر طے کرنے لگے۔ بس کے شیشوں سے باہر کے خوب صورت مناظر دیکھ کر وہ تعریف پر مجبور ہوتے رہے۔ انھیں برفانی ہرن، بارہ سنگھے، جنگلی بھینسے، پہاڑی بکرے اور اکا دکا سفید سر عقاب بھی نظر آیا۔ جبران کو سڑک کے کنارے جھاڑیوں کے درمیان بیری جیسے پھل کے درخت بھی نظر آئے، جب اس نے شین سے اس کا ذکر کیا تو وہ بولا: ’’یہ بیری ہی ہے، یوکان بیری کے حوالے سے ایک مشہور جگہ ہے، تم نے جو بیری دیکھی یہ گوز بیری کہلاتی ہے۔‘‘
’’ہم نے کبھی گوز بیری نہیں کھائی، یا کم از کم میں نے تو نہیں کھائی۔‘‘ جبران بولا۔ اس نے فیونا کی طرف دیکھا تو اس کی توجہ ڈریٹن کی طرف تھی۔ وہ دل ہی دل میں کہہ رہی تھی: میں اس شیطان کو خوب پہچانتی ہوں، وہ سوچ رہا ہے کہ وہ خود کو ڈرپوک ظاہر کر رہا ہے لیکن میں اس کی مکاری سے واقف ہوں۔ بے وقوف ڈریٹن۔ وہ ضرور سوچ رہا ہو گا کہ ہم اتنے احمق ہیں کہ اسے پہچانا بھی نہیں ہو گا … ہونہہ ۔۔۔
(جاری ہے….)
Comments