وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے میڈیا مخالف اقدامات کرتے ہوئے پیمرا ترمیمی بل 2023 قومی اسمبلی میں پیش کر دیا گیا جس کے ذریعے میڈیا انڈسٹری کو پابندیوں میں جکڑا جائے گا۔
اے آر وائی نیوز کے مطابق وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب جب اپوزیشن میں تھیں تو آزادی اظہار رائے کے بڑے بڑے دعوے کرتی تھیں۔ میڈیا نمائندوں اور صحافی تنظیموں سے ملاقاتیں کرتی رہیں اور پیمرا قوانین پر ان کی ہمدردیاں بٹورتی رہیں لیکن جب حکومت میں آئیں تو تیور ہی بدل گئے اور سب کچھ بھول گئیں، جاتے جاتے میڈیا انڈسٹری مخالف تجاویز لے آئیں۔ پیمرا ترمیمی بل 2023 قومی اسمبلی میں پیش کر دیا۔
قومی اسمبلی میں پیش کیے گئے پیمرا ترمیمی بل 2023 میڈیا پر پابندیاں ٹھونسنے کی پوری تیاری ہے جس میں نیوز چینلز کی ہر خبر کے لیے مصدقہ کی شرط بھی لگا دی گئی ٹی وی چینلز کے ضابطہ کار میں ڈس انفارمیشن اور مِس انفارمشین کی تشریح بھی بدل دی گئی۔ جرمانے کو بڑھا کر ایک کروڑ کر دیا گیا۔ تجاویز کی منظوری پر بل قانون بن جائے گا۔
قومی اسمبلی میں پیش کیے گئے پیمرا ترمیمی بل 2023 کے ابتدائیے سمیت 9 سیکشنز میں ترامیم اور 5 نئے سیکشنز کا اضافہ کیا گیا ہے۔ پیمرا قانون کے 29، 27، 26، 24، 13، 11، 8، 6 اور 2 کے سیکشنز میں ترامیم کی گئی ہیں جب کہ بل میں 20، 20 اے، 29 اے، 30 بی اور 39 اے کی نئی شقوں کا اضافہ کیا گیا ہے۔
بل کے ابتدائیے میں خبر کی جگہ مصدقہ خبر، برداشت، معاشی ترقی اور بچوں سے متعلقہ مواد کے الفاظ شامل کرنے کے ساتھ ترمیم کرکے عوام کی تفریح، تعلیم اور معلومات کے دائرے کو وسیع کر دیا گیا۔ اس بل کے مطابق الیکٹرانک میڈیا مصدقہ خبروں اور معاشرے میں تحمل کے فروغ کا مواد استعمال کرے گا۔ عمومی ترقی، توانائی، معاشی ترقی سے متعلق مواد بھی نشریات میں شامل کیا جائے گا۔
براڈ کاسٹ میڈیا کا لائسنس 20 سال کیلیے اور ڈسٹری بیوشن لائسنس 10 سال کیلیے ہوگا۔ نافذ العمل فیس ادا کرنا ہوگی لیکن اس میں سالانہ مجموعی تشہیری آمدن شامل نہیں ہوگی۔ ڈس انفارمیشن کی تشریح بھی ترمیم کے ذریعے بل میں شامل کی گئی ہے جس کے مطابق ڈس انفارمیشن سے مراد وہ خبر ہے جو قابل تصدیق نہ ہو یا گمراہ کن اور ساز باز کرکے تیار کردہ ہو۔
ترمیمی بل کے مطابق ایسی خبر بھی ڈس انفارمیشن کہلائے گی جو کسی ذاتی، سیاسی یا مالی مفاد کی خاطر دی گئی ہو یا متعلقہ شخص کا موقف لیے بغیر دی گئی ہو، جس کے خلاف خبر ہو اس سے متاثرہ شخص کا موقف بھی نمایاں انداز میں نشر کرنا ہوگا۔ مِس انفارمیشن سے مراد وہ مواد ہوگا جو جانچ کے بعد جھوٹ ثابت ہو یا غلطی سے نشر ہوا ہو۔ آرٹیکل 19 کی خلاف ورزی میں آنے والی خلاف ورزی سنگین خلاف ورزی تصور ہوگی۔
ٹی وی چینل کے ضابطہ کار میں ڈس انفارمیشن نشر نہ کرنے کی شرط شامل کی گئی ہے۔ معمول کے پروگرام کے دوران اشتہار کا دورانیہ 5 منٹ سے زیادہ نہیں ہوگا اور دو بریک میں اشتہارات کا دورانیہ 10 منٹ تک ہوگا۔ پابندیوں کی خلاف ورزی پر جرمانے کی حد بڑھا کر ایک کروڑ تک کر دی گئی ہے۔ 29 اے کے نئے سیکشن کے تحت 10 لاکھ اور سنگین خلاف ورزی پر ایک کروڑ تک جرمانہ ہوگا۔
شق 5 میں ترمیم کر کے الیکٹرانک میڈیا کو ملازمین کی بر وقت تنخواہوں کی ادائیگی کا پابند بنایا گیا اس سے مراد 2 ماہ کے اندر کی جانے والی ادائیگیاں ہیں جب کہ 20 اے کی نئی شق میں میڈیا ملازمین کو تنخواہوں کی بر وقت ادائیگی کا پابند بنایا گیا ہے۔
20 بی کی نئی شق میں پیمرا اور شکایات کونسل کے فیصلوں اور احکامات کی پاسداری کا پابند بنایا گیا ہے۔ تنخواہوں کی عدم ادائیگی پر وفاقی اور صوبائی سطح پر حکومتی اشتہارات فراہم نہیں کیے جائیں گے۔
شکایات کے ازالے کیلیے اسلام آباد اور صوبائی دارالحکومتوں میں شکایات کونسلز بنیں گی۔ یہ شکایات کونسلز میڈیا میں کم از کم تنخواہ کی حکومتی پالیسی اور اس کی بر وقت ادائیگی یقینی بنائے گی۔ یہ شکایات کونسلز الیکٹرانک میڈیا کیخلاف شکایات کی سماعت کرکے سفارشات پیمرا کو بھیجے گی۔
شکایات کونسل ایک چیئرمین اور 5 ارکان پر مشتمل ہوگی۔ ارکان کی مدت 2 سال ہوگی۔ پیمرا کے فیصلوں کے خلاف متعلقہ صوبے کے ہائی کورٹ میں اپیل کی جا سکے گی۔
سیکشن 6 میں ترمیم کر کے ارکان کی متعین تعداد ختم کر کے پیمرا ارکان کی تقرری کا اختیار صدر کو دیا گیا ہے، بوقت ضرورت چیئرمین پیمرا کے سفارش کردہ ارکان کی تعیناتی ہوگی یہ ارکان نان ووٹنگ ہوں گے اور اعزازی طور پر کام کریں گے۔
پیمرا کے ان دو ارکان میں سے ایک براڈ کاسٹرز اور دوسرا پی ایف یو جے کا نمائندہ ہوگا۔ پیمرا کا اجلاس اب وڈیو لنک اور سرکولیشن کے ذریعے بھی منعقد ہو سکے گا اور پیمرا کے اختیارات چیئرمین، کسی رکن یا اتھارٹی کے افسر کو تفویض ہوسکیں گے۔
اس بل میں چیئرمین پیمرا کے اختیار بھی محدود کیے گئے ہیں جس کے مطابق اب چیئرمین پیمرا کو کسی براڈ کاسٹ میڈیا یا ڈسٹری بیوشن کا لائسنس دینے یا کسی کا لائسنس منسوخ کرنے کا اختیار نہیں ہوگا۔