نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
دوسری طرف ڈریٹن نے ان کا پیچھا جاری رکھا تھا؛ جب اس نے ان تینوں کو ہوٹل ریورزایج اِن میں کمرہ لیتے دیکھا تو سمجھ گیا کہ یہ تینوں رات یہیں گزاریں گے۔ اس نے بھی رات اسی ہوٹل میں گزارنے کا فیصلہ کر لیا۔ اپنے لیے کمرہ لیتے ہوئے جب اس نے فیونا کے کمرے کا نمبر دیکھا تو اس نے کلرک سے ساتھ والے کمرے کی درخواست کی۔ وہ کمرے کی چابی لے کر اپنے کمرے کی طرف جاتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ آج رات ان تین شیطانوں کے ساتھ خوب کھیل کھیلے گا۔ کمرے میں پہنچ کر پہلے تو وہ سو گیا، پھر تین گھنٹے بعد اٹھ کر اس نے خود کو تیار کر لیا۔ اس کے اور فیونا کے کمرے کے درمیان صرف ایک دروازہ تھا۔ اس نے خود کو اتنا چھوٹا کر لیا کہ آسانی سے دروازے کے نیچے سے ہوتا ہوا اندر پہنچ گیا اور پھر اپنے نارمل سائز میں آ گیا۔ ادھر ادھر دیکھتے ہوئے اس نے فون اٹھا کر روم سروس کے لیے آرڈر دیا: ’’مجھے تین عدد آئس کریم چاہیے، اس کے اوپر بہت ساری مکھن ملائی، بارہ سنگھے کی یخنی، روسٹ کی ہوئی اودبلاؤ کی دُم، اور ہاں اس کے ساتھ بہت سارا سان ضرور ہو۔‘‘
آدھے گھنٹے بعد ویٹر نے دروازے پر دستک دی تو ڈریٹن نے دروازہ کھول کر اسے بھاری ٹپ دی۔ اس کے جانے کے بعد ڈریٹن نے کھانوں کی ٹرے بستر پر الٹ دی، اور تکیے کمبل سمیت دونوں بستر بری طرح خراب کر دیے۔ ’’اب مزا آئے گا۔‘‘ اس نے ایک شیطانی قہقہہ لگایا اور ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ پھر اس نے ٹوتھ پیسٹ کی ٹیوبز اور شیمپو کی بوتلیں اٹھائیں اور پورے باتھ روم کی ایسی تیسی کر دی۔ دیواریں، دروازے، سنک، کچھ نہ چھوڑا۔ اس نے کھڑکی کھولی، ہوٹل سے ایک تار قریبی ٹیلی فون کھمبے تک گئی تھی، اس پر کبوتر بیٹھے ہوئے تھے، اس نے کبوتروں سے کہا: ’’پرندو، اندر آؤ، یہاں گندگی پھیلاؤ۔‘‘
کبوتروں نے ان کے حکم کو سنا اور اندر باتھ روم میں اڑ کر آ گئے۔ پھر جہاں جہاں وہ بیٹ کر سکتے تھے انھوں نے کی۔ ڈریٹن نے کھڑکی بند کی اور تولیہ لے کر اسے کبوتروں کی طرف سے زور سے لہرایا، ان کے پر اڑ کر کمرے میں پھیل گئے۔ اس وقت اس کے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔ وہ بڑبڑایا: ’’ریورز ایج اِن کے مہمانوں کے لیے خصوصی سرپرائز!‘‘
اس کے بعد خود کو دوبارہ ننھا منا کر کے وہ اپنے کمرے میں داخل ہو گیا، اور قصبے میں گھومنے پھرنے کے بارے میں سوچنے لگا۔