نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک کو کھولیں

تینوں نے نورِ فجر دیکھنے سے قبل کمرے میں جا کر غسل لینے کا فیصلہ کیا اور میز پر بل کے ساتھ ویٹرس کے لیے ٹپ بھی چھوڑ دی اور اوپر آ گئے۔ فیونا نے دروازے کے تالے میں چابی گھمائی اور دروازہ جیسے ہی کھلا، سڑی بد بو کا ایک جھونکا آیا اور وہ تینوں اچھل پڑے۔

’’یہ کیسی بد بو ہے؟‘‘ فیونا پریشان ہو گئی۔ ’’ارے یہ آوازیں کیسی ہیں؟‘‘ دانیال تیزی سے باتھ روم کے بند دروازے کی طرف بڑھا: ’’ایسا لگتا ہے کہ اندر پرندے ہوں۔‘‘
انھوں نے کمرے میں چاروں طرف دیکھا، بہت ہی برا حشر بنا تھا کمرے کا۔ بد بو سے دماغ پھٹا جا رہا تھا۔ وہ چٹکی سے ناک دبانے پر مجبور ہو گئے تھے، اور تھوڑی تھوڑی دیر بعد انھیں سانس لینے کے لیے ناک کھولنی پڑ رہی تھی۔ دانیال نے باتھ روم کے دروازے سے کان لگا کر سننے کی کوشش کی اور کہا: ’’مجھے لگتا ہے اندر کبوتر بند ہیں، غٹر غوں کی آوازیں آ رہی ہیں، کیا میں یہ دروازہ کھول دوں؟‘‘ اس نے دونوں کی طرف دیکھا۔
جبران نے حیران ہو کر کہا: ’’لیکن کبوتر اندر کیسے آ گئے! کیا تم دونوں میں سے کسی نے کھڑکی کھلی چھوڑ دی تھی؟‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ بستر پر بچھے ہوئے کمبل پر بیٹھ گیا لیکن بیٹھتے ہی فوراً اچھل پڑا۔ ’’اس میں کچھ ہے، مجھے چپچپا سا محسوس ہوا۔‘‘
دانیال اور فیونا بستر کے قریب آ گئے: ’’تم کمبل اٹھا کر دیکھو، نیچے کیا ہے؟‘‘ دانیال نے کہا۔
’’نن … نہیں۔‘‘ جبران گھبرا کر بولا: ’’پپ … پتا نہیں اندر کوئی لاش نہ ہو۔‘‘ فیونا نے منھ بنا کر کہا یہاں کسی لاش کا کیا کام، بستر میں کوئی لاش ہو ہی نہیں سکتی۔ ایسے میں دانیال کی آواز آئی، تو پھر باتھ روم میں کبوتر کہاں سے آ گئے؟ فیونا کو یہ سن کر غصہ آ گیا، اور انھیں ڈرپوک کا طعنہ دے کر آگے آئی اور کمبل کا ایک کونا پکڑ کر اسے الٹ دیا۔ اس کے نیچے کھانا پھیلا کر پورے بستر اور تکیوں کا ستیاناس کیا گیا تھا۔ فیونا کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا۔ ’’اب سمجھ آ گیا، یہاں کوئی داخل ہوا تھا اور کھانا بستر پر ڈال کر گندگی پھیلا کر چلا گیا، میں ابھی منیجر سے بات کرتی ہوں۔‘‘
ٹھہرو فیونا، پہلے باتھ روم کا جائزہ تو لیں۔‘‘ دانیال نے آگے بڑھ کر دروازہ کھول دیا۔ دروازہ کھلتے ہی کبوتر اڑ کر کمرے میں پھیل گئے اور وہ تینوں خود کو ان سے بچانے لگے۔ انھوں نے دیکھا کہ باتھ روم کے فرش اور دیواروں پر شیمپو، ٹوتھ پیسٹ اور کبوتر کی بیٹ جا بہ جا پڑی ہوئی ہے۔ یہ دیکھ کر فیونا کا غصہ عروج پر پہنچ گیا۔ ’’میں سمجھ گئی ہوں، یہ سب اس خبیث ڈریٹن کی حرکت ہے، اسی نے آ کر یہ سب کیا ہے۔‘‘
’’لیکن فیونا، تم یہ کیسے کہہ سکتی ہو، کیا پتا کہ یہاں ہمارے کسی نادیدہ دشمن نے ایسا کیا ہو۔‘‘ دانیال بولا۔
’’میں ابھی معلوم کرتی ہوں۔‘‘ فیونا نے کہا اور کبوتروں کو ٹیلی پیتھی کے ذریعے مخاطب کیا: ’’کبوترو، تم جہاں سے آئے ہو، وہاں واپس چلے جاؤ، اور یہ بتاتے جاؤ کہ تم نے ایسا کیوں کیا؟‘‘
ایک کبوتر نے جواب دیا کہ انھیں ڈریٹن نے حکم دیا تھا، اگر وہ ایسا نہ کرتے تو ڈریٹن اپنی شیطانی قوت سے انھیں نقصان پہنچا دیتا۔ کبوتر نے فیونا کا نام لے کر معذرت بھی کی، جس پر فیونا حیران ہوئی کہ اسے نام کیسے معلوم ہوئے۔ کبوتر نے کہا پرندے فطرت کا حصہ ہوتے ہیں، جب کوئی ان سے بات کرتا ہے تو فطرت انھیں اس کا نام بتا دیتی ہے، اور یہ بھی پتا چل جاتا ہے کہ وہ اچھا ہے یا برا اور ڈریٹن مکمل شیطان ہے۔ فیونا نے یہ سن کر سر ہلایا اور پھر کھڑکی کھول دی، سارے کبوتر اڑ کر باہر چلے گئے۔
وہ تینوں اس واقعے سے سخت غصے میں تھے، فیونا انٹرکام پر ہوٹل کے منیجر کو اطلاع دینے لگی۔
(جاری ہے)

Comments