نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
ڈریٹن نے ایک اور ریستوران میں کھانا کھایا تھا اور پھر تیز رفتاری سے واپس ہوٹل آ کر اپنے کمرے میں ڈیرا جما لیا تھا۔ وہ دیکھنا چاہ رہا تھا کہ جب فیونا اور اس کے دوست اپنے کمرے میں آئیں گے تو ان کا رد عمل کیا ہوگا۔ اس لیے وہ دونوں کمروں کے درمیان دروازے سے ٹیک لگا کر زمین پر بیٹھ گیا تاکہ آوازیں واضح طور پر سن سکے۔ اسی دوران اسے انگھ آگئی، کچھ دیر بعد جب وہ ہڑبڑا کر جاگا تو اسے تیز آواز میں باتیں سنائی دینے لگیں، کوئی بات بات پر قہقہے لگا رہا تھا۔ وہ جلدی سے اٹھ کر کھڑکی کے پاس گیا تو دیکھا کہ ہوٹل کے نیچے کچھ لوگ کھڑے باتیں کر رہے ہیں۔ ڈریٹن ان پر غصے سے چیخا: ’’دفع ہو جاؤ یہاں سے اور کہیں اور جا کر شور مچاؤ۔‘‘
ان لوگوں نے سر اٹھا کر اسے دیکھااور پھر گفتگو میں مگن ہو گئے۔ کسی نے اس کا نوٹس نہیں لیا تھا۔ ڈریٹن بہت تلملایا اور بڑبڑایا کہ اچھا ایسی بات ہے تو ابھی بتاتا ہوں!
اس نے برف کی ایک چھوٹی بالٹی اٹھائی، اس میں اپنا شیمپو ڈالا، پھر سرخ مشروب جو اس نے منگوایا تھا بالٹی میں انڈیلا۔ ایک چھوٹے پیالے میں گرم پانی سے تین صابن پگھلائے اور اسے بھی شیمپو میں ملا دیا۔ پھر اس میں پانی ڈال کر اچھی طرح ملایا اور پھر یہ جھاگ بھرا رنگ دار پانی کھڑکی سے ان لوگوں پر انڈیل دیا۔ جب اس نے لوگوں کے چہرے، سر اور کپڑے خراب ہوتے دیکھا اور صابن کے بلبلے اڑتے دیکھے تو خوب قہقہے لگانے لگا: ’’سبق سکھا دیا نا میرے کمرے کے قریب شور مچانے پر۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے کھڑکی بند کی اور پلٹا۔ اسی وقت اسے فیونا کے کمرے سے آوازیں سنائی دیں۔ وہ جلدی سے دروازے کے قریب بیٹھ گیا۔ اندر سے آنے والی خوف اور دکھ سے بھری ہر آواز پر وہ بے تحاشا خوش ہوتا رہا۔ اور جب منیجر نے آ کر ان سے تاوان کا مطالبہ کیا تو اس وقت وہ خوشی کے مارے فرش پر لوٹ پوٹ ہونے لگا۔ جب وہ نئے کمرے میں منتقل ہونے لگے تو اس نے ان کا تعاقب کیا تاکہ دیکھ سکے کہ وہ کس کمرے میں ٹھہرنے جا رہے ہیں۔ اور اس کے بعد وہ چھت پر جا کر روشنیوں کا نظارہ کرنے لگے۔
۔۔۔۔۔۔۔
’’روتھ نے ٹھیک ہی کہا تھا، کتنا شان دار اور خوب صورت نظارہ ہے یہ۔‘‘ فیونا نے دور افق پر پھیلے تیز چمکیلے لال، پیلے اور سبز رنگ کی دھاریاں دیکھتے ہوئے کہا۔
’’مجھے تو یہ دیکھ کر رینبو یاد آ گئی۔‘‘ جبران بولا۔ دانیال آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر رنگین روشنی کی دھاریوں کو آسمان میں ادھر ادھر رقص کرتے دیکھ رہا تھا۔ اس نے کہا: ’’لیکن یہ نظارہ قوس قزح سے کہیں زیادہ شان دار ہے۔‘‘ دانیال نے ایسا نظارہ کبھی خواب میں بھی نہیں دیکھا تھا۔ ان رنگوں کے پیچھے آدھی رات کے آسمان میں ستارے جھلمل رہے تھے۔ تینوں یہ نظارہ دیکھنے میں کھو گئے تھے۔ فیونا کی آواز سنائی دی: ’’یہ تو ایسا لگتا ہے جیسے کسی نے آسمان میں پینٹنگ کی ہو۔‘‘ دانیال نے کہا: ’’مجھے ایسا لگتا ہے جیسے نیلے اور سبز شعلوں کے ساتھ آسمان میں لگ گئی ہو۔‘‘ جبران نے مداخلت کی، ہاں لیکن یہ کبھی کبھی یہ شعلے سرخ اور پرپل بھی ہو جاتے ہیں۔ تینوں آسمان پر نظریں جمائے اسی طرح کی گفتگو میں مگن تھے۔
ان سے چند قطار پیچھے بیٹھا ڈریٹن بور ہو رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ یہ سب لوگ احمق ہیں جو یہاں بیٹھے عجیب و غریب جذبات کا اظہار کر رہے ہیں، حالاں کہ یہ صرف روشنی ہی ہے اور اس میں کوئی خاص بات نہیں۔ پھر اسے خیال آیا کہ وہ اس کے بارے میں پہلان جادوگر سے پوچھے گا کہ کیا اس میں کچھ جادو ہے؟ یہ سوچ کر وہ اٹھا اور نیچے جانے لگا۔