اسلام آباد: چیئرمین اوگر نے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں انکشاف کیا ہے کہ اوگرا نے 12 مہینوں کے دوران 800 پمپس لگانے کی اجازت دی۔
اے آر وائی نیوز کے مطابق نور عالم خان کی زیرِصدارت پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس ہوا، چیئرمین اوگرا نے بتایا کہ اوگرا کی جانب سے 12 مہینے میں 800 پمپس لگانے کی اجازت دی گئی ہے۔
اس موقع پر نور عالم خان کا کہنا تھا کہ کمیٹی نے اوگرا کو پی ایس او پمپس پر سے پابندی ہٹانے کی ہدایت کی تھی، کسی صوبے کو آپ محروم نہیں رکھ سکتے۔
حکام کا کہنا تھا کہ اوگرا نے کوئی پابندی نہیں لگائی ہوئی، اس دوران کمیٹی نے پھر پنجاب اور کے پی میں پی ایس او پمپس پر سے پابندی ہٹانے کی ہدایت کی، نور عالم خان نے کہا کہ سیکریٹری کابینہ ڈویژن اس پر عملدرآمد کرائیں گے۔
سابقہ دورِ حکومت میں 3 ارب ڈالر کے قرضوں کا معاملہ بھی زیر بحث آیا، جس پر نور عالم خان نے بتایا کہ نیب ایف آئی اے کو 3 ارب ڈالر کا معاملہ بھیجا تھا۔
ڈپٹی چیئرمین نیب نے کہا کہ تینوں اداروں نیب، ایف آئی اے اور آڈیٹر جنرل نے اس پر کام کیا ہے، ابتدائی رپورٹ تیار کی ہے، 17 مارچ 2020 کو اسکیم لانچ کی گئی، اسکیم کے تحت 398 ارب کی تقسیم ہوئی، یہ 30 جون 2023 تک جاری رہی، ٹوٹل 1145 ارب روپے کی تقسیم ہوئی ہے۔
نور عالم خان نے کہا کہ اسکیم ایک سال کے لیے تھی لیکن اس کو توسیع دی گئی، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے کس شرح پر قرضہ لیا؟ کیا پیسے کا استعمال صحیح ہوا ہے؟ چند لوگوں نے اربوں کا قرضہ لیا، مشاہد حسین سید نے کہا کہ ہم اس میں کوئی گھپلا نہیں دیکھ رہے۔
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین نے کہا کہ جو ابھی اسٹیٹ بینک کا گورنر ہے یہ اس وقت ڈپٹی گورنر تھا، نیب، ایف آئی اے اور آڈیٹر جنرل تینوں آئینی ادارے ہیں، یہ مشترکہ تحقیقات ہے، جس کی سربراہی نیب کر رہا ہے۔
برجیس طاہر کا کہنا تھا کہ تین ماہ سے یہ سننے میں آرہا تھا کہ 640 افراد کو حکومت نے 3 ارب ڈالر 5 فیصد پر دیے، 3 ماہ سے یہ سلسلہ کیوں چھپایا گیا، 628 لوگوں کی فہرست دے دیں۔
سینیٹر سیف اللہ ابڑو نے کہا کہ اپہلے تو ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک کے خلاف ایکشن لیں، اس کے بعد جو بھی اس میں ملوث ہے اس پر ایکشن لیں، پہلے گورنر اسٹیٹ بینک کو عہدے سے ہٹایا جائے۔
نور عالم خان نے کہا کہ ڈپٹی چیئرمین نیب کہہ رہے ہیں جون 2023 تک یہ اسکیم چلی ہے، نیب اپنی جگہ پر تحقیقات کرے، ہم اسی لیے کہتے ہیں دہرا چارج کسی کے پاس نہیں ہونا چاہیے۔
کمیٹی کی جانب سے چیئرمین نادرا کی عدم موجودگی پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا گیا جب کہ کمیٹی نے آڈیٹر جنرل کو اسٹیٹ بینک کا آڈٹ کرنے کا حکم دے دیا ہے۔