نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
اس ناول کی پچھلی اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
’’اوہ فیونا یہ تو بہت خطرناک قدم ہوگا۔‘‘جبران کی پیشانی پر شکنیں پڑ گئیں۔ ’’ایسا ہونا نہیں چاہیے، ہم مشکل میں پھنس جائیں گے۔‘‘
’’تو پھر تم کوئی دوسری ترکیب سوچو او گلیشیئر تک پہنچنے سے پہلے پہلے مجھے بتا دو۔‘‘ فیونا نے کہا۔ وہ جس راستے پر آگے بڑھ رہے تھے، اس پر گرینائٹ کے ٹکڑے بکھرے پڑے تھے اور ان پر چلنا آسان نہیں تھا۔ شَین نے ان سے کہا تھا کہ اگر انھیں بھوک ستائے تو اسنیکس نکال کر کھائیں اور خود کو تھکاوٹ اور کمزور سے بچائیں کیوں کہ ان کا سفر بہت مشکل ہوگا۔ فیونا نے اپنے سامان سے کھانے کا بیگ نکالا اور اس میں سے گوشت کے لمبے پارچے نکال کر شَین کی طرف دیکھا: ’’یہ کیا ہے؟‘‘
شین نے مسکرا کر جواب دیا: ’’اسے جرکی کہتے ہیں، یہ بارہ سنگھے کے گوشت کا ہے، خشک کیا ہوا۔‘‘
جبران نے خشک میوہ جات نکال ہے۔ فیونا کو جرکی بہت ذائقہ دار لگا تو وہ تعریف کرنے لگی، دانیال نے بھی کھا کر اس کی تائید کی۔ ان کا یہ سفر دو گھنٹے تک جاری رہا، آخر کار وہ گلیشیئر کے نچلے حصے میں پہنچ گئے۔ فیونا جبران کے قریب جا کر بولی: ’’تم نے کوئی ترکیب سوچی؟‘‘
’’نہیں۔‘‘ جبران نے مایوسی سے سر ہلایا۔ فیونا اس کا جواب سن کر اچانک مڑی اور چیخ کر بولی: ’’مسٹر شِین، ہم بہت تھک چکے ہیں، کیا یہاں کچھ دیر کے لیے آنکھیں بند کر کے آرام کر سکتے ہیں؟‘‘
’’ہاں کیوں نہیں۔‘‘ وہ بولا۔ ’’تم تینوں رک کر آرام کر لو۔ میں چند منٹ کے لیے یہ ایریا دیکھوں گا۔‘‘ اس نے اپنا سامان اتار کر کہا اور ایک پہاڑی کے پیچھے غائب ہو گیا۔ اس کے نظروں سے اوجھل ہونے کی دیر تھی کہ فیونا اچھل کر بولی:’’جلدی کرو جبران، دانی فوراً، یہی موقع ہے، اپنا اپنا سامان سنبھالو۔‘‘
دانی حیران ہوا اور پوچھنے لگا کہ کیا وہ شین کے بغیر جائیں گے۔ وہ منصوبے سے بے خبر تھا، فیونا نے کہا بعد میں تمھیں بتا دیں گے کہ انھوں نے کیا منصوبہ بنایا تھا۔ زمرد کے حصول کے لیے شین سے چھٹکارا ضروری تھا، کیوں کہ وہ ہوگا تو اس کے زخمی ہونے کا خطرہ رہے گا۔
انھوں نے اندھا دھند گلیشیئر کی تہہ میں دوڑ لگا دی۔ دانیال دوڑتے دوڑتے اپنا سامان سنبھالنے لگا اور پوچھنے لگا کہ کتنی دور جانا ہے۔ فیونا نے بتایا کہ چند میل کا راستہ ہے۔ وہ تینوں برف کے دریا پر جتنا تیز دوڑ سکتے تھے، دوڑ رہے تھے اور ادھر ادھر دیکھتے جا رہے تھے۔
دانیال نے دوڑتے دوڑتے کہا: ’’میں ایک فلم میں دیکھا تھا کہ گلیشیئر سے برف کے بڑے بڑے ٹکڑے الگ ہو کر گر رہے ہیں، یہ بہت خطرناک ہوتا ہے۔ ہم برف کے دریا پر نہیں بلکہ موت کے دریا پر دوڑ رہے ہیں۔‘‘
’’بس صرف ایک میل مزید۔‘‘ فیونا اپنی سانسوں پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہوئے بولی۔ ’’ہمیں شَین سے ہر حال میں چھپنا ہے۔‘‘ چند منٹ کے بعد وہ ایک جگہ رک گئی اور کہا یہی وہ جگہ ہے جہاں گلیشیئر کے اندر زمرد ہے۔ اس نے دانی کو شین کی نگرانی پر لگا دیا کہ کہیں وہ نہ آ دھمکے اچانک، اور جبران سے کوئی نوکیلی چیز مانگی۔ جبران نے اپنا سامان رکھ کر اس میں مطلوبہ چیز ڈھونڈتے ہوئے پوچھا: ’’تمھیں کیسے معلوم ہوا کہ یہی جگہ ہے؟‘‘
فیونا نے وہاں موجود پتھروں کی ایک ڈھیر کی طرف اشارہ کر کے کہا اس کی وجہ سے۔ جبران نے فوراً اعتراض کیا: ’’بتاؤ ذرا، اگر کیگان کے آدمی نے یہاں ایک ہزار سال قبل قیمتی پتھر چھپایا ہے تو پتھروں کا یہ ڈھیر یہاں ویسے کا ویسے کس طرح برقرار رہ سکتا ہے۔ کیا یہ ڈھیر برف کے اندر دفن نہیں ہو سکتا تھا، یاد ہے نا کہ گلیشیئر اپنی جگہ سے حرکت کرتے رہتے ہیں۔‘‘ زبان کے ساتھ ساتھ اس کے ہاتھ بھی حرکت میں تھے، پھر ایک چھوٹا سا کدال اس کے ہاتھ لگا۔ ’’یہ چلے گا؟‘‘
فیونا نے اس کے ہاتھ سے کدال لے لیا اور بولی: ’’میرے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں ہے۔ میں یہ ڈھیر تصور میں دیکھا۔ زمرد یہاں بس چند فٹ ہی نیچے برف کے اندر ہے۔ پتھروں کے ڈھیر کی یہ نشانی یہاں کیسے بنی، میں نہیں جانتی۔‘‘
’’کیا آئس لینڈ کی طرح یہاں بھی پریاں ہیں؟‘‘ جبران نے پوچھ لیا۔ ’’ہو سکتا ہے یہاں پریاں ہوں جنھوں نے ہماری مدد کی ہو، اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جادوگر زرومنا نے ایسا کیا ہو۔ بہرحال، میں اس سلسلے میں کوئی بحث نہیں کرنا چاہتی، چلو ہمیں یہاں سے برف ہٹانی ہے۔‘‘
فیونا نے چھوٹا سا کدال دائیں ہاتھ میں تھاما اور عین اس مقام پر جہاں چند فٹ نیچے زمرد دفن تھا، ایک ضرب لگائی۔ پہلی ضرب کے ساتھ ہی جبران کا دل زور سے دھڑکا۔ دانیال ان سے محض بیس قدم کے فاصلے پر کھڑا تھا اور اس کا رخ مخالف سمت میں تھا۔اس نے فیونا کو نیلی برف پر ضرب لگاتے نہیں دیکھا تھا لیکن کسی بھی انسان کے اوسان خطا کر دینے والی خوف ناک گرج سب سے پہلے اس نے سنی تھی۔
(جاری ہے…)

Comments