پیر, اکتوبر 7, 2024
اشتہار

سپریم کورٹ نے توشہ خانہ کیس سے متعلق ٹرائل کورٹ کے فیصلے میں غلطیوں کی نشاندہی کردی

اشتہار

حیرت انگیز

اسلام آباد : سپریم کورٹ نے توشہ خانہ کیس سے متعلق ٹرائل کورٹ کےفیصلے میں غلطیوں کی نشاندہی کردی، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ بادی النظر میں ٹرائل کورٹ کے فیصلے میں غلطیاں ہیں لیکن ہم ابھی مداخلت نہیں کریں گے۔

تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں توشہ خانہ کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی کی اپیل پر سماعت چیف جسٹس عمرعطاء بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس جمال خان مندوخیل بینچ کا حصہ ہیں۔

وکیل لطیف کھوسہ نے بتایا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کےمختلف احکامات کیخلاف 3درخواستیں دائر کی ہیں، چیئرمین پی ٹی آئی 2018 انتخابات میں میانوالی سے رکن اسمبلی منتخب ہوئے، الیکشن ایکٹ ہر رکن اسمبلی کو اثاثہ جات کی تفصیل جمع کروانے کا کہتا ہے، 6اراکین اسمبلی نے چیئرمین پی ٹی آئی کی نااہلی کیلئےاسپیکر کے پاس ریفرنس بھیجا، اراکین اسمبلی نے چیئرمین پی ٹی پر اثاثوں کی غلط ڈیکلریشن کا الزام لگایا اور اسپیکر نے ریفرنس الیکشن ایکٹ سیکشن 137کے تحت چیف الیکشن کمشنرکوبھجوادیا۔

- Advertisement -

جسٹس مظاہر علی اکبر نے لطیف کھوسہ کو ہدایت کی کہ آپ الیکشن ایکٹ کا سیکشن 137 پڑھیں ، جسٹس مظاہر نقوی نے استفسار کیا کہ کیا ایک رکن اسمبلی دوسرے رکن کیخلاف شکایت درج کرا سکتا ہے؟ ایک رکن نے دوسرے رکن کیخلاف کس قانون کےتحت اسپیکرکودرخواست دی؟

چیف جسٹس عمر عطابندیال نے استفسار کیا کہ سیشن عدالت میں کیا آپ کا مؤقف ہے کہ شکایت قابل سماعت نہیں تھی؟ وکیل لطیف کھوسہ نے بتایا کہ ہمارا مؤقف ہے کہ توشہ خانہ کی شکایت پہلے مجسٹریٹ کے پاس جانی چاہیےتھی تو چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 193 کو پڑھ کر اپناسوال بتائیں، آپ کے مطابق معاملے پر ابتدائی کارروائی مجسٹریٹ کرکےٹرائل سیشن عدالت ہی کرسکتی ہے۔

جسٹس مندوخیل نے ریمارکس دیے قانون میں لکھا ہے مجسٹریٹ شکایت کا جائزہ لیکر سیشن عدالت بھیجے گا، قانون میں مجسٹریٹ کے جائزہ لینےکا مطلب کیا ہے ؟ جس پرلطیف کھوسہ نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ اس کا مطلب ہے مجسٹریٹ جائزہ لے گا کہ شکایت بنتی بھی ہےیانہیں ؟ قتل ہو نہ تو دفعہ 302کی ایف آئی آر درج نہیں ہوسکتی۔

وکیل کا کہنا تھا کہ میرے مطابق ایک رکن دوسرے کیخلاف شکایت نہیں کرا سکتا، اسپیکر ریفرنس بھیجتا ہے، چیئرمین پی ٹی آئی کیخلاف اسپیکر نے ریفرنس بھیجا لیکن120دن گزرنے کے بعد، جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ کا کیس تو ہائی کورٹ کے فیصلے کیخلاف ہے شکایت کی قانونی حیثیت پر نہیں،ٹرائل کورٹ سے مقدمہ ختم ہوچکا اب کس کو ریمانڈ کیا جا سکتا ہے؟ موجودہ کیس کا سزا کیخلاف مرکزی اپیل پر کیا اثر ہوگا؟

وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ عدالت کو گھڑی کی سوئیاں واپس پہلے والی پوزیشن پر لانا ہونگی ، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہر مرتبہ غلط بنیاد پر بنائی گئی عمارت نہیں گرسکتی، تو وکیل چیئرمین پی ٹی آئی نے مزید بتایا کہ الیکشن کمیشن نے21اکتوبرکوچیئرمین پی ٹی آئی کونااہل کرکےشکایت درج کرانےکافیصلہ کیا، الیکشن کمیشن کے فیصلے کیخلاف لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا گیا، لاہور ہائی کورٹ نے قرار دیا نہ کوئی فوجداری کارروئی تاحکم ثانی نہیں ہوگی۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا لاہور ہائی کورٹ میں توہین عدالت کی درخواست دائر کی تھی؟ لطیف کھوسہ نے بتایا کہتوہین عدالت کی درخواست سپریم کورٹ میں دائر کرینگے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ درخواست وہاں ہی دائر ہوسکتی جس عدالت کی توہین ہوئی۔

وکیل نے عدالت کو بتایا کہ الیکشن کمیشن فیصلےکی روشنی میں ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنرنےفوجداری شکایت درج کرائی، ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنر کو الیکشن کمیشن نے مقدمہ درج کرانے کی اتھارٹی نہیں دی تھی، چیئرمین پی ٹی آئی کیخلاف شکایت سیکرٹری نے بھیجی وہ مجازنہیں تھا۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے لطیف کھوسہ سے مکالمے میں کہا کہ آپ یہ نقطہ کیسےسپریم کورٹ میں اٹھا سکتےہیں، ہم دوسرے فریق کوسنے بغیر آپ کی اپیل کیسے مان سکتےہیں، مرکزی اپیل تواسلام آبادہائیکورٹ میں زیر سماعت ہے، جس پر لطیف کھوسہ نے کہا کہ وہ توبعد کی بات ہے،سیشن جج فیصلے کے بعدامریکا چلے گئے۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیاہم کیس کوخود سنیں یا ہائیکورٹ کو کہیں وہ ان نکات کو سامنے رکھ کر فیصلہ کرے، آپ کی دلیل ہے کہ بادی النظر میں سیکرٹری الیکشن کمیشن شکایت نہیں بھیج سکتاتھا،سیشن کورٹ کوشکایت مسترد کرنی چاہیے تھی، تو جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ مستردکیوں واپس بھیجنے کی بات کیوں نہیں کررہےہیں۔

چیئرمین پی ٹی آئی کی توشہ خانہ کیس سے متعلق درخواست پر سماعت میں وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ ڈی ای سی کومقدمہ درج کرنےکااختیارسیکرٹری الیکشن کمیشن نےدیاتھا، سیکرٹری الیکشن کمیشن کااختیاراستعمال نہیں کرسکتا، الیکشن کمیشن کامطلب اس کاچیف اور 4ممبران ہیں جبکہ جج ہمایوں دلاورمقدمہ سننےکےبھی اہل نہیں تھے۔

جسٹس مظاہر نقوی نے ریمارکس دیئے کہ مجسٹریٹ نےتعین کرناہوتاہےکہ مقدمہ وہ سن سکتاہےیاسیشن کورٹ، جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ موجودہ کیس کاہائیکورٹ میں زیرالتوااپیل پر براہ راست اثر پڑے گا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ یہ تمام نکات ہائیکورٹ میں اٹھائیں تو زیادہ مناسب ہوگا تو لطیف کھوسہ نے بتایا کہ سپریم کورٹ میں یہ نکات دوسری مرتبہ اٹھائے جارہے ہیں، عدالت نےپہلےبھی سارےنکات ہائیکورٹ کو بھیجے تھے ہائیکورٹ نےعدالتئ حکم کےباوجود کیس دوبارہ ہمایوں دلاور کوبھیجا۔

جسٹس عطا عمر بندیال کا کہنا تھا کہ دائرہ اختیار کا اعتراض اپیل میں بھی اٹھایا جا سکتا ہے، ان نکات پرفیصلہ ہم کریں یاہائیکورٹ کوواپس بھیج دیں؟

چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل لطیف کھوسہ کے سپریم کورٹ میں دلائل مکمل کرلئے، چیف جسٹس نے کہا کہ بادی النظرمیں ٹرائل کورٹ کے فیصلے میں غلطیاں ہیں لیکن ہم آج مداخلت نہیں کریں گے، کل ہائیکورٹ میں ہونےوالی سماعت کودیکھیں گے، اسلام آبادہائیکورٹ کل صبح اپیلوں پر سماعت کرے، سماعت کے بعدہم مقدمہ سنیں گے۔

Comments

اہم ترین

راجہ محسن اعجاز
راجہ محسن اعجاز
راجہ محسن اعجاز اسلام آباد سے خارجہ اور سفارتی امور کی کوریج کرنے والے اے آر وائی نیوز کے خصوصی نمائندے ہیں

مزید خبریں