ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی بی) کی ایک رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ گزشتہ سال کورونا وبا اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کے باعث ایشیا میں تقریباً 68 ملین افراد انتہائی غربت کا شکار ہو ئے ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 67.8 ملین افراد کے اعداد و شمار بہت زیادہ ہیں، کورونا وبا اور زندگی میں بڑھتے اخراجات کے بحران کے بغیر ایسا ممکن نہیں۔ گزشتہ برس ترقی پذیر ایشیائی ممالک میں 155.2 ملین افراد، جو کہ خطے کی آبادی کا 3.9 فیصد ہیں، انتہائی غربت میں زندگی بسر کررہے تھے۔
افراط زر کے لیے سن 2017 کی طے شدہ قیمتوں کی بنیاد پر انتہائی غربت کی تعریف یہ ہے کہ یومیہ 2.15 ڈالر سے بھی کم رقم پر روزمرہ کی گزاری جائے جو انتہائی سنگین صورتحال کو ظاہر کرتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق کورونا کی وبا اور جغرافیائی سیاسی تناؤ میں اضافے نے پچھلے کچھ سالوں میں سپلائی لائنوں میں خلل ڈالا ہے، جس کی وجہ سے پوری دنیا میں مہنگائی کی شرح میں اضافہ ہوگیا ہے۔
اے ڈی بی کے چیف اکانومسٹ البرٹ پارک کا اس حوالے کہنا ہے کہ ایشیا اور بحرالکاہل خطے میں مستقل بہتری ہو رہی ہے، تاہم یہ دوہرا بحران، ”غربت کے خاتمے کی طرف پیش رفت کو کمزور کر رہا ہے۔’
انہوں نے کہا کہ غریبوں کے لیے سماجی تحفظ کے ذرائع کو مضبوط کرنے نیز ایسی سرمایہ کاری اور اختراع کو فروغ دینے سے، جو ترقی اور روزگار کے مواقع پیدا کرتی ہوں، اس سے خطے کی حکومتیں دوبارہ ٹریک پر آ سکتی ہیں۔”
اے ڈی بی کے مطابق کم آمدنی کے علاوہ، غریب لوگ ضروری سامان اور خدمات تک رسائی کے لیے ایک پریمیم بھی ادا کرتے ہیں۔ جوکہ زیادہ آمدنی والے افراد ادا نہیں کرتے، مثلاًکم آمدن والے افراد اکثر کھانے پینے کی اشیاء کم مقدار میں خریدتے ہیں، جو زیادہ مقدار میں خریدنے سے قدرے سستی مل سکتی ہیں۔ ان کی رہائش ایسی بستیوں میں ہوتی ہے کہ جہاں انہیں صحت کے زیادہ خطرات لاحق ہوتے ہیں۔ جس کے باعث ان کی صحت کی دیکھ بھال کے اخراجات بھی بڑھ جاتے ہیں۔
رپورٹ میں ایسے طریقے ظاہر کئے گئے ہیں جن سے ایشیا میں حکومتیں زندگی گزارنے کی لاگت کے بحران سے نمٹنے میں مدد کر سکتی ہیں۔ اس میں مالیاتی خدمات تک رسائی کو بہتر بنانا، بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری کو ترجیح دینا، سماجی تحفظ کے نظام کو مضبوط بنانا، زرعی ترقی کے لیے سپورٹ میں اضافہ اور تکنیکی جدت کو فروغ دینا شامل ہے۔