آئی سی سی کے تحت تیسرا ون ڈے ورلڈ کپ 1983 میں انگلینڈ کی سرزمین پر کھیلا گیا تاہم دنیائے کرکٹ کو بھارت کی صورت نیا عالمی چیمپئن ملا۔
انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے تیسرے عالمی کپ کا میلہ سجانے کے لیے اس بار بھی انگلینڈ کی سر زمین کو ہی منتخب کیا لیکن ورلڈ کپ ایونٹ کی میزبانی کی انگلینڈ کی ہیٹ ٹرک ویسٹ انڈیز کی فتح کی ہیٹ ٹرک نہ بن سکی اور فائنل میں سارے تجزیے اور دعوے دھرے رہ گئے۔ دو بار کا عالمی چیمپئن حیران کن طور پر اب تک کھیلے گئے ورلڈ کپ فائنل کے سب سے کم ترین اسکور کا تعاقب نہ کر سکا جس کے نتیجے میں اس نے مایوسی اور حیرت کے ملے جلے جذبات کے ساتھ بھارت کو نیا عالمی چیمپئن بنتے اور نوجوان کپتان کپل دیو کو سفید چمکدار ٹرافی اٹھاتے دیکھا۔
تیسرے عالمی کرکٹ کپ کی چیدہ چیدہ اہم باتیں:
نئی تبدیلیاں جو پہلی بار ہوئیں:
اب سے پہلے کے دو ایونٹ فائنل سمیت میچوں پر مشتمل تھے اور اتنے ہی دن میں ایونٹ ختم ہوا تھا لیکن ورلڈ کپ کی مقبولیت دیکھتے ہوئے اس بار میگا ایونٹ میں میچز کی تعداد میں اضافہ کیا گیا جو فائنل سمیت 15 میچز سے بڑھ کر 27 میچوں تک جا پہنچی۔ 15 شہروں نے میزبانی کی۔ 9 سے 25 جون تک ہونے والے اس ایونٹ میں پہلی بار ٹیسٹ میچوں کی میزبانی نہ کرنے والے اسٹیڈیمز میں بھی میچز کا انعقاد کیا گیا۔
سابقہ دو ایونٹس کی طرح اس میں بھی 8 ٹیمیں ہی شریک ہوئیں اور انہیں دو گروپوں میں تقسیم کیا گیا تاہم گزشتہ میچ کی کوالیفائر کینیڈا کی جگہ زمبابوے کو ملی۔
اولین اور دوسرے عالمی کپ کے گروپ میچ میں ہر گروپ کی ٹیم کو مخالف ٹیم سے ایک ایک میچ یعنی مجموعی طور پر ہر ٹیم کو تین تین میچ کھیلنا تھے۔
تاہم 1983 میں کھیل میں تجسس اور سنسنی بڑھانے کے لیے میچز کی تعداد بڑھانے کے ساتھ اب ہر گروپ کی ٹیموں نے آپس میں دو دو میچز یعنی ہر ٹیم نے 6، 6 میچز کھیلے۔
گروپ اے میں پاکستان نیوزی لینڈ، سری لنکا اور نیوزی لینڈ شامل تھیں جب کہ گروپ بی میں دو بار کی فاتح اور دفاعی چیمپئن ویسٹ انڈیز کے ساتھ بھارت، آسٹریلیا اور نو آموز زمبابوے کو رکھا گیا تھا۔
اس ورلڈ کپ کے حیران کن حقائق:
تیسرے عالمی کرکٹ کپ کی سب سے حیران کن حقیقت تو یہ تھی کہ کالی آندھی کے نام سے دنیائے کرکٹ میں دہشت پھیلانے والی اور ابتدائی دو ورلڈ کپ نا قابل شکست رہتے ہوئے جیتنے والی ٹیم تیسرے ایڈیشن کے فائنل میں بھیگی بلی ثابت ہوئی اور ابتدائی دو ورلڈ کپ کی سب سے ناکام ٹیموں میں شامل بھارت کے دیے گئے 184 رنز کے معمولی ہدف کا تعاقب نہ کر سکی یوں عالمی کپ کی ہیٹ ٹرک کرنے کا خواب چکنا چور ہوا۔
صرف اتنا ہی نہیں بلکہ کالی آندھی جو گزشتہ دو ورلڈ کپ میں کوئی بھی میچ نہیں ہاری تھی اس نے 1983 کے ورلڈ کپ میں اپنی مہم کی افتتاح ہی ناکامی سے کی اور بھارت سے 34 رنز سے میچ ہار گئی جس کو اپ سیٹ شکست قرار دیا گیا تاہم اس وقت ویسٹ انڈیز اور نہ ہی کرکٹ پنڈتوں کے وہم وگمان میں ہوگا کہ فائنل بھی اس میچ کا ری پلے ہوگا۔
یہیں سے عملی طور پر ویسٹ انڈیز کی تنزلی کا آغاز ہوا جس اس کے بعد کسی ورلڈ کپ میں فائنل کے لیے کوالیفائی نہ کر سکی جب کہ 1987 کے بعد تو فائنل فور میں بھی نہ پہنچ سکی اور آج یہ حالت ہے کہ ماضی کی کالی آندھی بن کر سامنے آنے ہر حریف کو خس وخاشاک کی طرح مٹانے والی اور دو بار کی عالمی چیمپئن 13 ویں ورلڈ کپ کے لیے کوالیفائی بھی نہ کر سکی اور یہ کرکٹ کی تاریخ میں پہلی بار ہوگا کہ ورلڈ کپ کسی سابق عالمی چیمپئن کے بغیر ہی کھیلا جائے گا۔
1983 کے عالمی کپ کا ایک اور چونکا دینے والا حیران کن میچ پہلی بار ورلڈ کپ کھیلنے والی زمبابوے نے کیا جس نے 9 جون کو میگا ایونٹ میں اپنا پہلے میچ میں ہی اولین ورلڈ کپ کی فائنلسٹ ٹیم آسٹریلیا کو ہرا کر سب کو حیران اور کینگروز کو پریشان کر دیا۔
زمبابوے کے نو آموز بیٹرز نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے جم کر تجربہ کار آسٹریلین بولرز کا مقابلہ کیا اور مقررہ 60 اوورز میں 6 وکٹوں کے نقصان پر 239 رنز بنائے لیکن یہ رنز آسٹریلیا کے لیے جوئے شیر لانے کے مترادف ہوئے اور وہ 60 اوورز میں 7 وکٹوں کے نقصان پر 226 رنز تک ہی پہنچ سکی یوں فتح 13 رنز کے ساتھ زمبابوے کی جھولی میں گری۔
اس کے بعد گوکہ زمبابوے ایونٹ میں اپنا کوئی میچ نہ جیت سکی لیکن اپنے ابتدائی میچ میں زمبابوے نے آسٹریلیا کو اپ سیٹ شکست دے کر کسی بھی نان ایسوسی ایسٹ ٹیم کی ٹیسٹ کھیلنے والے ممالک کے خلاف کامیابی کی فہرست میں اپنا پہلا نام درج کروایا۔
تیسرے عالمی کپ کے لیے پاکستانی ٹیم:
اس بار عالمی کپ میں پہلی بار عمران خان نے قیادت کی تاہم وہ پنڈلی میں فریکچر کے باعث بیٹسمین کی حیثیت سے شریک ہوئے اور بولنگ نہ کر سکے اور بولنگ میں اس کمی نے قومی ٹیم کو شدید نقصان پہنچایا۔
عمران خان کو جاوید میاں داد، شاہد محبوب، مدثر نذر، اعجاز فقیہ، عبدالقادر ، سرفراز نواز ، ظہیر عباس، وسیم باری، راشد خان، وسیم راجا، منصور اختر اور طاہر نقاش کی خدمات حاصل تھیں۔
پاکستان کی طرح بھارت کی بھی تیسرے عالمی کپ میں قیادت نوجوان کپل دیو کے سپرد کی گئی تھی جب کہ کلائیو لائیڈ مسلسل تیسری بار ورلڈ کپ ٹرافی کا عزم اٹھائے قیادت کے لیے آئے تھے۔
ان کے علاوہ آسٹریلیا کی قیادت کم ہیوز ، سری لنکا کی قیادت دلیپ مینڈس، انگلینڈ کی قیادت باب ولس، کیوی ٹیم کی قیادت جیف ہاورتھ، زمبابوے کی قیادت ڈنکن فلیچر کر رہے تھے۔
ٹورنامنٹ میں بیٹنگ، بولنگ، فیلڈنگ کے بننے والے نئے ریکارڈز:
1983 کے ورلڈ کپ میں سابقہ دو ایونٹس کے مقابلے میں میچز کی تعداد زیادہ تھی اس لیے بیٹنگ اور بولنگ کے بھی نئے ریکارڈ بنے۔ اس مرتبہ بلے بازوں نے رنز کی برسات کی اور ان کے بیٹوں نے 12046 رنز اگلے۔
تیسرے عالمی کپ میں کل 8 سنچریاں اسکور کی گئیں سب سے زیادہ پاکستان، انگلینڈ اور ویسٹ انڈیز کی جانب سے 2،2 جب کہ بھارت اور آسٹریلیا کی طرف سے ایک ایک کھلاڑی تھری فیگرز اننگز کھیلیں۔ سب سے بڑا انفرادی اسکور بھارت کے چیمپئن کپتان کپیل دیو نے زمبابوے کے خلاف 175 رنز بنا کر قائم کیا۔
ٹورنامنٹ میں مجموعی طورپر انگلینڈ کے ڈیوڈ گاور نے 7میچوں میں 1سنچری اور 1 نصف سنچری کی مدد سے 76.80 رنز کی اوسط سے مجموعی طور پر 348رنز انفرادی اسکور کر کے سب سے زیادہ رنز بنانے کا اعزاز اپنے نام کیا جب کہ انفرادی طور پر بھارت کے راجر بنی 18 وکٹیں لے کر سب سے کامیاب بولر بنے۔
اس کرکٹ میلے میں بولروں نے 408 کھلاڑیوں کی اننگ کا خاتمہ کیا۔ بولرز نے 86 کھلاڑیوں کی وکٹیں اڑائیں۔ فیلڈرز نے 230 کیچز دبوچ کر بلے بازوں کو پویلین بھیجا۔ 47 بیٹرز ایل بی ڈبلیو آؤٹ قرار دیے گئے۔ 7 کھلاڑی وکٹ کیپر کی مدد سے آؤٹ کیے گئے جب کہ 38 کھلاڑی فیلڈرز کی تیزی اور چابکدستی کا شکار ہوکر رن آؤٹ ہوئے۔
تیسرے عالمی کپ میں بھارت کے راجر بینی 8 میچوں میں 528گیندیں کرواکر 336رنز کے عوض 18 وکٹیں حاصل کرکے تمام ہم عصر پر سبقت لے گئے۔
فائنلسٹ ہونے کی وجہ سے سب سے زیادہ میچ بھارت اور ویسٹ انڈیز نے 8،8 کھیلے۔ انفرادی طور پر بھارت کی گرنے والی 64 وکٹوں کی تعداد سب سے زیادہ تھی تو سب سے زیادہ وکٹیں بھی بھارت کے بولرز نے لیں اور مخالف 78 بیٹرز کا شکار کیا۔ نئی عالمی چیمپئن بھارت نے ہی زیادہ 446.2 اوورز کھیلنے والوں میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ بھارت کے باؤلرز کا مخالف ٹیموں نے بھرتا بنایا اور ان سے 1702 رنز حاصل کیے۔
ویسٹ انڈیز کے ونسٹن ڈیوس نے آسٹریلیا کے خلاف اس وقت تک ورلڈ کپ کی بیسٹ بولنگ کی اور 51 رنز کے عوض 7 وکٹیں حاصل کیں۔
گروپ اے سے انگلینڈ چھ میں سے پانچ میچ جیت کر سر فہرست رہا جب کہ پاکستان اور نیوزی لینڈ نے تین تین میچز جیتے لیکن بہتر رن ریٹ کے باعث پاکستان نے مسلسل دوسری بار ورلڈ کپ کا سیمی فائنل کھیلنے کا اعزاز حاصل کیا۔
گروپ بی میں ویسٹ انڈیز 5 میچز جیت کر سر فہرست رہا جب کہ بھارت نے چار میچ جیت کر پہلی بار سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کیا۔
پہلا سیمی فائنل:
ورلڈ کپ 1983 کا پہلا سیمی فائنل 22 جون کا مانچیسٹر میں میزبان اور گزشتہ ورلڈ کپ کی رنر اپ انگلینڈ اور بھارت کے درمیان کھیلا گیا جو بھارت نے 6 وکٹوں سے جیت کر کرکٹ کے پنڈتوں کو حیرت زدہ کر دیا۔
انگلینڈ کی پوری ٹیم پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے مقررہ 60 اوورز میں 213 رنز پر ڈھیر ہوگئی بھارت نے مقررہ ہدف 54.4 اوورز میں 4 وکٹوں کے نقصان پر حاصل کر کے 6 وکٹوں سے فتح اپنے نام کی اور فائنل میچ میں پہنچنے والی پہلی ٹیم بن گئی۔ مین آف دی میچ بھارت کے ایم امر ناتھ رہے جنہیں ان کی آل راؤنڈ پرفارمنس 27 رنز کے عوض دو وکٹیں اور 46 رنز کی اننگ کھیلنے پر مین آف دی میچ کا ایوارڈ دیا گیا۔
دوسرا سیمی فائنل:
دوسرا سیمی فائنل 22 جون کو اوول کرکٹ گراؤنڈ میں دفاعی چیمپئن ویسٹ انڈیز اور پاکستان کے درمیان کھیلا گیا جو گزشتہ ورلڈ کپ کے دونوں ٹیموں کے درمیان کھیلے جانے والے سیمی فائنل کا ری پلے ثابت ہوا فاتح ویسٹ انڈیز رہی۔
پاکستان نے مقررہ 60 اوورز پورے کھیلے اور 8 کھلاڑیوں کے نقصان پر صرف 184 رنز ہی بنا سکی۔ ویسٹ انڈیز نے ہدف کا کامیابی سے تعاقب ہوا اور 48.4 اوورز میں 8 وکٹوں کی بڑی جیت سے ہمکنار ہوکر تیسری بار فائنل میں پہنچ گیا۔ ویوین رچرڈ نا قابل شکست 80 رنز کی اننگ کھیلنے پر بہترین کھلاڑی قرار پائے۔
سیمی فائنل میں پاکستانی اوپنر محسن حسن خان کے 176 گیندوں پر سست ترین 70 رنز پر منفی ریکارڈ کے ساتھ سب سے نمایاں تھے۔ پاکستان کی اس پوری اننگ میں صرف تین چوکے لگے اور ٹاپ اسکورر محسن خان صرف ایک بار گیند کو باؤنڈری کے پار پہنچا سکے۔
1983 ورلڈ کپ کا سب سے بڑا مقابلہ اور انہونی کو ہونی میں بدلنے والا فائنل:
25 جون کو جب لارڈز کے تاریخی میدان پر دو بار کی فاتح ویسٹ انڈیز اپنے بہترین سابقہ ریکارڈ اور نئی فائنلسٹ ٹیم بھارت میدان میں اتریں تو ہر ایک کالی آندھی کے میدان میں چلنے کی توقع کر رہا تھا۔
ویسٹ انڈین کپتان کلائیولائیڈ نے فائنل میچ کا ٹاس جیتا اور اپنے تازہ دم فاسٹ بائولرز کی موجودگی میں پہلے فیلڈنگ کا فیصلہ کیا تو بولرز نے مایوس نہ کیا اور پوری بھارتی ٹیم کو 183 کے معمولی اسکور پر میدان بدر ہوگئی اور کوئی بھی بھارتی بلے باز ایک نصف سنچری بھی نہ بنا سکا۔ ویسٹ انڈین بولرز کی اس شاندار کارکردگی نے شائقین کی توقعات کو مزید بڑھا دیا۔
دوسری جانب دو روز قبل سیمی فائنل میں پاکستان کے دیے گئے 184 رنز کے ہدف کو جس آسانی سے ویسٹ انڈیز نے صرف دو وکٹوں کے نقصان پر حاصل کیا تو کسی کے ذہن میں کوئی دوسرا خیال موجود ہی نہیں تھا۔ کالی آندھی بھی مطمئن تھی۔
تاہم ویسٹ انڈیز کی بیٹنگ کا انداز بھی ڈرامائی انداز میں ہوا اور صرف 5 کے مجموعی اسکور پر گرینج نے بلوندر ساندھو کی ایک گیند کو باہر جاتی ہوئی سمجھ کر چھوڑ دیا مگر گیند آف سٹمپ اکھاڑ کر لے گئی اس کے بعد ہینز اور رچرڈز نے اسکور کو آگے بڑھانا شروع کیا لیکن جم نہ سکے اور آخری ویسٹ انڈین وکٹ ہولڈنگ کی صورت میں گری تو سینکڑوں بھارتی تماشائی ترنگے لیے میدان میں اتر آئے اور دنیائے کرکٹ نے نیا کرکٹ چیمپئن بنتے دیکھا۔
ورلڈ کپ کہانی، دوسرا عالمی کپ 1979، وہ ریکارڈ بنا جو آج تک نہ ٹوٹ سکا
جب بھارت کرکٹ کی دنیا کا نیا چیمپئن بنا اور کپتان کپل دیو نے انتہائی مسرور انداز میں ایم سی سی کے صدر سے ورلڈ کپ کی چمچاتی ورلڈ کپ ٹرافی وصول کی تو ویسٹ انڈین کپتان کلائیو لائیڈ یہ منظر نم آنکھوں سے دیکھ رہے تھے کہ جن آنکھوں نے عالمی چیمپئن بننے کی ہیٹ ٹرک کرنے کے خواب دیکھے تھے ان میں اب افسردگی اور ملال کے رنگ نمایاں تھے
اس مضمون کے لیے عمران عثمانی کی کتاب ’’ورلڈ کپ کہانی‘‘ سے بھی مدد لی گئی ہے۔