نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
ناول کی گزشتہ اقساط یہاں پڑھیں
شین نے انھیں ان کے ہوٹل پر اتار دیا۔ اترتے ہی جبران بولا: ’’اب ہمیں فوری طور پر گھر جانا چاہیے۔‘‘ فیونا نے ان سے پوچھا کہ کیا ان کے پاس اپنی اپنی چیزیں پوری ہیں، تو دونوں نے ہاں میں سر ہلا دیا۔ فیونا نے بھی کہا کہ اب گھر چلتے ہیں۔ دانیال نے پوچھا: ’’کیا ہمیں اُس مقام پر نہیں جانا پڑے گا جہاں ہم پہلی بار نمودار ہوئے تھے؟‘‘
’’نہیں۔‘‘ فیونا نے جواب دیا: ’’پہلے میں بھی ایسا سمجھتی تھی لیکن اب مجھے پتا چل گیا ہے کہ اس کی ضرورت نہیں ہے، بس صرف اُسی علاقے میں ہمیں ہونا چاہیے۔‘‘
’’تمھیں یہ کیسے معلوم ہوا؟‘‘ جبران نے اس کی طرف دیکھ کر پوچھا۔ ’’بس ہو گیا معلوم۔‘‘ اس نے کندھے اچکا کر کہا ’’اب دریائے یوکان کی طرف چلو۔‘‘
جب وہ دریا کے پاس آئے تو انھیں بہت سارے لوگ گیلے کپڑوں کے ساتھ ملے، جن کے چہرے سرخ ہو رہے تھے اور ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ سب دریا میں خوب نہائے ہوں۔ جبران نے کہا: ’’گلیشیئر سے جو سیلابی ریلا آیا تھا کیا یہ سب اس میں بھیگے ہیں، کیا اتنی دور تک وہ ریلا آیا ہوگا؟‘‘
’’ہو سکتا ہے۔‘‘ فیونا بولی: ’’میرے ہاتھ مضبوطی سے پکڑ لو۔ گھر جانے کا وقت آ گیا ہے۔ میں واپسی کا منتر پڑھنے لگی ہوں۔‘‘
فیونا نے چند لمحوں کے لیے آنکھیں بند کیں اور پھر ایک دم کھول کر دھڑکتے دل کے ساتھ منتر پڑھنے لگی …. دالث شفشا یم بِٹ …