لوزانے : سوئٹزر لینڈ کے سائنسدانوں نے جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے اعصابی بیماری پارکنسن کے مریض کو دوبارہ چلنے کے قابل بنا دیا۔
غیرملکی خبر رساں ادارے روئٹرز کی رپورٹ کے مطابق پارکنسنز کے مرض میں مبتلا 63 سالہ طویل المدتی مریض مارک گوتھیئر گزشتہ کئی سال سے اس مرض میں مبتلا ہیں۔
دوران علاج مارک گوتھیئر کو اپنے گھر تک محدود رکھا گیا تھا جب تک کہ وہ سوئس ڈیزائن کردہ ایک نیا امپلانٹ حاصل کرنے والے پہلے شخص نہیں بن گئے جس نے ان کی چلنے کی صلاحیت کو ڈرامائی طور پر بہتر کیا۔
مریض نے لوزان یونیورسٹی ہسپتال میں نیورو پروسٹیٹک حاصل کی، جس میں اس کی ریڑھ کی ہڈی کے خلاف ایک الیکٹروڈ فیلڈ رکھا گیا تھا۔
یہ آلہ الیکٹریکل امپلس جنریٹر کے ساتھ مل کر ریڑھ کی ہڈی کو اس کی ٹانگوں کے پٹھوں کو متحرک کرنے کا کام کرتا ہے۔
اس تجر بے کی کامیابی کے بعد پارکنسنز کے دیگر مریض بھی اسے استعمال کرسکتے ہیں، جو مریضوں کے اعتماد، ان کی نقل و حرکت اور معیار زندگی بہتر بناتا ہے۔ سائنسدانوں نے اگلے سال 6 نئے مریضوں کے لیے کلینیکل ٹیسٹ کا منصوبہ بنایا ہے۔
فرانسیسی شہری گوتھیئر کا کہنا ہے کہ اس نے میری زندگی بدل دی کیونکہ میں اب آزاد ہوں، میں اپنا گھر چھوڑ سکتا ہوں، اپنے کام خود کرسکتا ہوں اور پیدل بھی چل سکتا ہوں
واضح رہے کہ پارکنسنز ایک انحطاط پذیر اعصابی بیماری ہے جس کی علامات جیسے جھٹکے، سختی اور توازن اور ہم آہنگی میں دشواری ہوتی ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق گزشتہ 25 سال میں اس بیماری کے واقعات میں دگنا اضافہ ہوا ہے۔ عالمی اندازوں سے پتہ چلتا ہے کہ 2019 میں 8.5 ملین سے زیادہ لوگ اس بیماری کا شکار ہوئے۔