نجانے وہ لوگ کہاں بستے ہیں جن کے بارے میں احمد فراز نے کہا تھا ؎
کیا ایسے کم سخن سے کوئی گفت گو کرے
جو مستقل سکوت سے دل کو لہو کرے
ہمیں تو اپنے ارد گرد وہ لوگ ہی نظر آتے ہیں جنھیں سخن سے دل کو لہو اور سماعت کو لہولہان کرنے کا شوق ہے۔ ہمارے ہاں باتیں کرنا ایک باقاعدہ مشغلہ اور رواج ہے۔ لوگ ایک دوسرے کو ”گپ شپ“ اور ”کچہری کرنے“ کی دعوت دیتے ہیں اور یہ ”دعوتِ گفتگو“ گھنٹوں پر محیط ہوتی ہے۔
ہمارے ہاں بات چیت کا آغاز ہی نہایت بے تکے پن سے کیا جاتا ہے، لہٰذا دوران گفتگو دانائی اور معقولیت کی توقع رکھنا فضول ہے۔ بات چیت کی ابتدا عموماً دو بھلے چنگے اور ہنستے مسکراتے افراد اس سوال سے کرتے ہیں:
”اور بھئی ٹھیک ٹھاک“ یا ”خیریت سے ہو۔“ اس کے بعد لایعنی سوالات اور بے معنی گفتگو کا سلسلہ دراز ہوتا چلا جاتا ہے۔
مغرب میں دو اجنبیوں میں گفتگو کی شروعات عموماً موسم کے تذکرے سے ہوتی ہے۔ مگر ہمارے یہاں جب دو ناآشنا ملتے ہیں تو خالصتاً ذاتی نوعیت کے سوالوں سے بات شروع کی جاتی ہے۔ مثلاً اپنے کاروبار کے مالک اور خاصے متمول یا نو دلتیے، بھائی اچھن اور ایک فیکٹری میں ملازمت کرنے والے شبّو میاں پہلی بار ایک شادی کی تقریب میں ملے ہیں، جہاں وہ دونوں محض اس لیے ایک دوسرے سے گویا ہونے پر مجبور ہوگئے کہ کوئی تیسرا انھیں لفٹ نہیں کرا رہا۔
بھائی اچھن (گاڑی کی چابی گھُماتے ہوئے): ”آپ کی کیا مصروفیات ہیں؟“
شبو میاں: ”مصروفیات تو بڑے لوگوں کی ہوتی ہیں۔ ہم جیسے لوگ تو نوکری ہی میں مصروف رہ کر زندگی گزار دیتے ہیں۔“
بھائی اچھن:”کہاں نوکری کرتے ہیں“
شبو میاں: ”ایک فیکٹری میں۔“
بھائی اچھن: ”فیکٹریوں میں تو تنخواہیں بہت کم ہیں۔ گزارہ ہو جاتا ہے؟“
شبو میاں: ”بڑی مشکل سے“
بھائی اچھن: ”تو اپنا کاروبار کیوں نہیں کر لیتے؟“
اس سوال پر شبو میاں کے چہرے کا رنگ متغیر ہوجاتا ہے اور کئی مغلظات ان کے گلے تک آکر بہ مشکل واپس جاتی ہیں۔ وہ بھائی اچھن کے پاس سے اٹھنے کی کوشش کرتے ہیں، مگر بھائی اچھن اس شکار کو اتنی آسانی سے چھوڑنے والے نہیں۔ وہ شبو میاں کے سامنے مشوروں کا انبار لگادیتے ہیں، جن میں مختلف کاروبار کرنے کی تجاویز شامل ہیں۔
میاں اچھن کی طرح کے کردار ہمارے یہاں عام ”دست یاب“ ہیں۔ یہ خواتین و حضرات کی وہ قسم ہے جسے دوسروں کو مشورے دینے کا جنون ہوتا ہے۔ یہ ہر وقت بے تاب رہتے ہیں کہ کسی طرح دوسروں کے مسائل جان لیں، تاکہ انھیں حل کرنے کے لیے کوئی نادر و نایاب مشورہ دیا جاسکے۔ بلکہ ان کی خواہش ہوتی ہے کہ لوگوں کو مسائل میں مبتلا دیکھیں اور ان مسائل کا حل تجویز کریں۔ اس مقصد کو بروئے کار لانے کے لیے یہ لوگ دوسروں کے دل و دماغ، یہاں تک کہ کپڑوں میں جھانکنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ اگر آپ کہیں ان کے سامنے کھانس دیے تو یہ ذراسی دیر میں آپ کے لیے لاتعداد حکیمی، ہومیوپیتھک اور ایلوپیتھک ادویات تجویز کر دیں گے۔ ادھر آپ نے ان کے روبرو اپنی مالی پریشانی کا تذکرہ کیا اور ادھر یہ کسی ماہر معاشیات کی طرح آپ کی معیشت سدھارنے کے فارمولے پیش کرنے لگے۔ ان خواتین و حضرات کے بارے میں ہم آج تک یہ طے نہیں کرسکے ہیں کہ یہ صرف باتوں کے لیے مشوروں کی پٹاری کھول دیتے ہیں یا مشورے دینے کے لیے گفت گو فرماتے ہیں!
(شاعر، ناول نگار، سینئر صحافی اور مزاح نگار محمد عثمان جامعی کے قلم سے)