جمعرات, دسمبر 26, 2024
اشتہار

فہمیدہ ریاض جنھوں نے شعور کی بہار کے ہر مخالف کو ’پتّھر کی زبان‘ میں‌ جواب دیا

اشتہار

حیرت انگیز

’’جب تک غربت ہے، فہمیدہ ریاض کی شاعری زندہ رہے گی۔‘‘ مشہور انقلابی شاعر حبیب جالب نے یہ بات فہمیدہ ریاض کے لیے کہی تھی۔ آج فہمیدہ ریاض‌ کی برسی ہے۔

فہمیدہ ریاض ترقی پسند ادیب، شاعر ہی نہیں، سماجی کارکن اور پاکستان میں‌ حقوقِ نسواں کی بڑی حامی تھیں۔ اس راستے میں فہمیدہ ریاض نے مشکلات ہی نہیں‌ جھیلیں‌ بلکہ کئی تنازعات کا بھی سامنا بڑی ہمّت اور بہادری سے کیا۔ انھیں اپنی نظموں‌ اور تحریروں میں بعض‌ حقیقتوں کو کھل کر بیان کرنے کی وجہ سے عریاں نگاری کا الزام بھی سہنا پڑا۔ خالدہ حسین نے ان کے متعلق کہا تھا،’’فہمیدہ ریاض وہ پہلی شاعرہ ہیں، جنھوں نے عورت کا اصل (Archetypal) تشخص اُجاگر کیا ہے۔ وہ عورت کے منصب اور مسائل کو جسمانی اور روحانی سرشاری کے ساتھ منسلک دیکھتی ہیں۔ زندگی کے تسلسل کے لیے عورت کا کردار صرف جبلتی نہیں بلکہ ایک ماورائی جہت بھی رکھتا ہے۔ فرید الدین عطار کی سات سو برس قدیم فارسی کلاسِک’منطق الطیر‘ پر مبنی ایک خوبصورت تمثیلی کہانی ’قافلے پرندوں کے‘ لکھنا روحانی واردات سے گزرے بغیر ممکن نہیں۔ رومی کی غزلیات کی سرمستی اور روحانی کیفیت کو اردو کا پیرایہ دینا خود اس سرخوشی میں گلے گلے ڈوبنے کا اشاریہ ہے۔ ان کے نزدیک تخلیقی فن میں اس کا اظہار پانا ایک فطری عمل بلکہ فن کا فریضہ ہے۔ ان کی شاعری کا رنگ انقلابی ہے مگر وہ نعرہ باز ہرگز نہیں۔ تحریر میں جمالیات کا ایک پورا نظام ہے اور الفاظ میں حسیت کی شدت ہے۔‘‘

فہمیدہ ریاض نے شاہ عبد اللطیف بھٹائی اور شیخ ایاز کی کتابوں کو سندھی زبان سے اردو میں ترجمہ کیا۔ فہمیدہ ریاض پاکستان کی ان ادبی شخصیات میں سے ایک ہیں‌ جنھیں ان کے تانیثی خیالات اور فن و تخلیق کی بدولت عالمی سطح پر بھی پہچان ملی۔

- Advertisement -

فہمیدہ ریاض 28 جولائی 1945ء کو میرٹھ، برٹش انڈیا کے علمی و ادبی گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد ریاض الدین احمد ماہرِ تعلیم تھے۔ تقسیمِ ہند کے بعد اس کنبے نے پاکستان میں‌ حیدر آباد سندھ میں اقامت اختیار کی۔یہاں فہمیدہ ریاض‌ کی عمر چار برس ہی تھی کہ والد صاحب کا انتقال ہو گیا اور والدہ نے ان کی پرورش کی۔ حیدرآباد میں فہمیدہ نے سندھی زبان سیکھی۔ زمانۂ طالبِ علمی میں فہیمدہ نے پہلی نظم لکھی، جو احمد ندیم قاسمی کے رسالے میں شائع ہوئی۔ فہمیدہ ریاض زرخیز ذہن کی مالک اور بیدار مغز خاتون تھیں۔ دورانِ تعلیم ہی انھوں نے طلبہ سرگرمیوں میں حصّہ لینا شروع کر دیا تھا۔ اس عرصے میں ان کا تخلیقی سفر بھی جاری رہا اور 60 کی دہائی میں وہ طلبہ یونین پر پابندی کے خلاف لکھتی رہیں۔ پاکستان میں ضیاء کے دور میں انھیں‌ حکومتی پالیسیوں پر نکتہ چینی اور بعض‌ فیصلوں‌ پر تنقید کے بعد 10 سے زائد مقدمات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس دور میں‌ فہمیدہ ریاض نے بھارت میں جلاوطنی کاٹی اور تقریباً سات سال بعد وطن واپس آئیں۔

فہمیدہ ریاض کا پہلا شعری مجموعہ اس وقت شایع ہوا جب ان کی عمر 22 سال تھی۔ اس کا نام ’پتھر کی زبان‘ تھا اور یہ 1967ء میں شائع ہوا۔ ان کا دوسرا مجموعہ ’بدن دریدہ‘ 1973ء میں شادی کے بعد شایع ہوا۔ اس وقت فہمیدہ ریاض انگلینڈ میں مقیم تھیں اور پھر تیسری کتاب ’دھوپ‘ کے نام سے منظرِ عام پر آئی۔ فہمیدہ ریاض نیشنل بک فاؤنڈیشن اسلام آباد کی سربراہ بھی رہیں۔ انھیں‌ حکومتِ پاکستان اور ادبی و انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے متعدد اعزازات سے نوازا گیا۔

فہمیدہ ریاض‌ کا انتقال 21 نومبر 2018ء کو ہوا اور انھیں لاہور میں سپردِ خاک کیا گیا۔ ان کی دیگر تصانیف ’حلقہ مری زنجیر کا‘، ’ہم رکاب‘، ’ادھورا آدمی‘، ’اپنا جرم ثابت ہے‘، ’ میں مٹی کی مورت ہوں‘، ’آدمی کی زندگی‘ کے نام سے شایع ہوئیں۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں