جمعرات, دسمبر 26, 2024
اشتہار

بڑا ریلیف! نواز شریف کو ایون فیلڈ ریفرنس میں بری کردیا گیا

اشتہار

حیرت انگیز

اسلام آباد : اسلام آباد ہائیکورٹ نے ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف کو بری کردیا اور فلیگ شپ ریفرنس میں نواز شریف کی بریت کیخلاف نیب اپیل واپس لینے کی استدعا منظورکرلی۔

تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں سابق وزیراعظم نوازشریف کی ایون فیلڈ،العزیزیہ ریفرنسزمیں سزاکیخلاف اپیلوں پرسماعت ہوئی ، چیف جسٹس اسلام آبادہائیکورٹ کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے سماعت کی، بینچ چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل تھا۔

نوازشریف عدالت میں پیش ہوئے ، نوازشریف کےساتھ مریم اورنگزیب اور اسحاق ڈار بھی موجود رہے۔

- Advertisement -

نواز شریف کے وکیل امجدپرویزکی جانب سے دلائل میں کہا گیا کہ آج میں عدالت کےسامنےفردجرم کےبعدکی کارروائی پردلائل دوں گا، مریم نوازاورکیپٹن(ر)صفدرپرنوازشریف کی اعانت جرم کاالزام تھا، عدالت نے دونوں شریک ملزمان کی اپیل منظور کر کے بری کیا، ہائیکورٹ سےشریک ملزمان کی بریت کافیصلہ حتمی صورت اختیارکرچکاہے۔

وکیل کا کہنا تھا کہ عدالت نےایون فیلڈریفرنس میں نواز شریف کوسیکشن9اےسےبری کیاتھا، کیس میں اب بس سیکشن9اےفائیوبچاہےجوآمدن سےزائداثاثہ جات سےمتعلق ہے۔

وکیل امجد پرویز نے عدالت میں نیب آرڈیننس کا سیکشن 9 اے فائیوپڑھ کرسنایا اور کہا سیکشن 9 اے 5 کے تحت استغاثہ کو کچھ حقائق ثابت کرنا ہوتے ہیں، سیکشن9اے5کا تقاضہ ہےملزم کو پبلک آفس ہولڈر ثابت کیا جائے، سیکشن9اے5کا تقاضا ہے کہ ملزم کو بینامی دار ثابت کیا جائے، سیکشن9اے5کاتقاضا ہےثابت کیاجائےاثاثےآمدن سےمطابقت نہیں رکھتے، نیب آرڈیننس میں بے نامی دار لفظ کی تعریف کی گئی ہے۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس میں کہا کہ میرے خیال میں سزا معطلی بھی اسی بنیاد پر ہوئی تھی، سزامعطلی فیصلےمیں ہم نےسپریم کورٹ کےمتعددفیصلوں کاسہارالیاتھا، بعدازاں سپریم کورٹ نےفیصلوں میں مزیدوضاحت کی،اس پرمعاونت کریں۔

امجد پرویز ایڈووکیٹ نے سوال کیا کہ ظاہر کردہ آمدن کے ساتھ یہ بتانا تھا کہ اثاثے بناتے وقت اس کی قیمت کیا تھی؟ نیب کو آمدن اور اثاثوں کی مالیت کے حوالے سے تقابل پیش کرنا تھا، اس کے بعد یہ بات سامنے آنی تھی کہ اثاثوں کی مالیت آمدن سے زائد ہے یا نہیں، اس تقابلی جائزے کے بغیر تو آمدن سے زائد اثاثے بنانے کا جرم ہی نہیں بنتا۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا پراسیکیوشن نے سب سے پہلے کیا ثابت کرنا ہوتا ہے؟ جس پر امجد پرویز نے کہا کہ پراسیکیوشن نے سب سے پہلے ملزم کو پبلک آفس ہولڈر ثابت کرنا ہوتا ہے،اُس کے بعد پراسیکیوشن نے زیرکفالت اور بےنامی داروں کو ثابت کرنا ہوتا ہے،پراسیکیوشن نے پھر آمدن سے زائد اثاثوں کا تعین کرنا ہوتا ہے،پراسیکیوشن نے ذرائع آمدن کی اثاثوں سے مطابقت دیکھنی ہوتی ہے، نیب میاں نواز شریف پر لگائے گئے الزامات میں سے ایک بھی ثابت نہیں کر سکا۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ یہ پراپرٹیز مختلف اوقات میں ایکوائر کی گئیں، جس پر امجد پرویز کا کہنا تھا کہ میں ان کی تاریخیں آپ کو بتا دیتا ہوں تو چیف جسٹس نے استفسارکیا پراسیکیوشن نے ریفرنس میں لکھا ہے کہ نواز شریف نے یہ پراپرٹیز کب لیں؟ ۔

نواز شریف کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پورے ریفرنسز میں نواز شریف کا ان پراپرٹیز سے تعلق جوڑنے کا کوئی ثبوت موجود نہیں، 1993سے 1996 کے دوران یہ پراپرٹیز بنائی گئیں، ان پراپرٹیز کے حوالے سے اپیل کنندہ کا کوئی تعلق نہیں، پراسیکیوشن نے ریفرنس میں نہیں بتایا کہ ان پراپرٹیز سے کیا تعلق ہے، بے نامی، اعانت جرم اور زیر کفالت سے متعلق سپریم کورٹ نے فیصلوں میں تشریح کی ہے۔

امجد پرویز ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ آمدن سے زائد اثاثہ جات کی تفتیش کے بعد پراپرٹی کی مالیت کا مرحلہ آتا ہے، معلوم ذرائع آمدن کا جائیداد کی مالیت سے موازنہ کیا جاتا ہے، 9اے فائیو کا جرم ثابت کرنے کیلئے تمام تقاضے پورے نہیں کئے گئے، اس کیس میں جرم ثابت کرنے کیلئے ایک جزو بھی ثابت نہیں کیا گیا۔

عدالت نے استفسار کیا کیا ریفرنس میں لکھا ہے کہ نواز شریف نے کب یہ جائیدادیں خریدیں ؟ جس پر نواز شریف کے وکیل نے بتایا کہ ریفرنس میں نہ تاریخ موجود ہیں نہ ہی نواز شریف کی ملکیت کا ثبوت ہے، نیب انویسٹی گیشن، جے آئی ٹی یا سپریم کورٹ کے فیصلے میں پراپرٹیز کی مالیت کا تعین موجود نہیں، امجد پروی

چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیئے ریفرنس تو ہے بھی بس تین چار صفحوں کا ، جس پر وکیل کا کہنا تھا کہ نواز شریف کی ان پراپرٹیز سے تعلق جوڑنے کیلئے کوئی شہادت موجود نہیں، ریفرنس میں کوئی ایسی بات نہیں جس سے نواز شریف کا پراپرٹیز سے تعلق ثابت ہو واجد ضیا نے خود تسلیم کیا کہ نواز شریف کا پراپرٹیز سے تعلق ثابت کرنے کے شواہد نہیں، فرد جرم عائد میں یہ بات بتائی جاتی ہے کہ آپ کے اثاثے ظاہر کردہ اثاثوں کے مطابق نہیں۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کیا ان تمام دستاویزات میں پراپرٹیز کے حصول کی تاریخ اور ان کی مالیت موجود نہیں؟ جس پر امجد پرویز ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ کچھ دستاویزات میں ہے لیکن ان پراپرٹیز کا نواز شریف سے تعلق ثابت کرنے کے حوالے سے کچھ موجود نہیں۔

اسلام آباد ہائیکورٹ نے ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف کو بری کردیا جبکہ نیب نے فلیگ شپ ریفرنس میں نواز شریف کی بریت کیخلاف اپیل واپس لے لی۔

جس کے بعد اسلام آبادہائیکورٹ نے نیب کی اپیل واپس لینے کی بنیاد پر خارج کر دی اور فلیگ شپ ریفرنس میں نواز شریف کی بریت کیخلاف نیب اپیل واپس لینے کی استدعا منظور کرلی۔

خیال رہے احتساب عدالت نے نواز شریف کو دس سال کی سزا سنائی تھی۔

Comments

اہم ترین

مزید خبریں