نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
ناول کی گزشتہ اقساط پڑھیے
ڈریٹن ان لوگوں میں سے تھا جو زیادہ انتظار نہیں کر سکتے، جو چیز حاصل کرنی ہو اسے پوری بدمعاشی کے ساتھ زور بازو سے حاصل کر لیتے ہیں۔ لیکن یہاں معاملہ ہی کچھ اور تھا، جادوئی گولا تب تک حاصل کرنا مشکل تھا جب تک تمام ہیرے ڈھونڈ کر نہیں لائے جاتے، اور ان کے لیے مختلف قسم کے دور دراز اور خطرناک علاقوں کا جادوئی سفر کرنا پڑ رہا تھا۔ اس میں وقت تو لگنا ہی تھا۔ اینگس کے گھر سے بھاگنے کے بعد وہ جھیل پہنچ گیا تھا، کشتی چلا کر جب وہ دوسری طرف اترا تو جھنجھلایا ہوا تھا۔ وہ بڑبڑا کر بولا: ’’اس طرح آگے پیچھے جاتے ہوئے میں اب تھک چکا ہوں، ایک تو یہ کشتی چلانا بھی ایک عذاب ہے۔‘‘ اس نے چار و ناچار کشتی ایک درخت سے باندھ دی۔
قلعے کی طرف جاتے ہوئے وہ سوچنے لگا کہ اب کون سی طاقت اس کے پاس آ گئی ہے کیوں کہ فیونا اور اس کے دوست نیا ہیرا جو لے کر آ گئے تھے۔ جادوگر پہلان اسے بتا چکا تھا، اس نے یاد کیا اور پھر اچھل پڑا۔ ’’اوہ تو اب میرے پاس سونا اور ہیرے جواہرات تلاش کرنے کی طاقت آ گئی ہے۔‘‘ سوچتے سوچتے وہ قلعے کے اندر پہنچ گیا تھا۔ اپنے سلیپنگ بیگ پر بیٹھ کر اسے خیال آیا کہ اس قلعے میں بھی تو خزانہ ہو سکتا ہے۔ یہ خیال آتے ہی وہ بے قراری سے اس کے بارے میں سوچنے لگا کہ خزانہ کہاں چھپایا گیا ہوگا۔ اگلے ہی لمحے حیرت انگیز طور پر اسے خواب جیسی کیفیت میں ہیرے جواہرات سے بھرا ایک روشن کمرہ دکھائی دیا۔ وہ پرجوش ہو گیا اور اس نے آنکھیں کھول دیں۔ لیکن وہ کمرہ ہے کہاں؟ اس نے پھر آنکھیں بند کر کے تصور کیا اور پھر اسے پورا نقشہ دکھائی دینے لگا۔ ’’میں نے ڈھونڈ لیا۔‘‘ اس کے منھ سے چیخ نکل گئی اور وہ اچھل کر کھڑا ہو گیا۔
ٹارچ لے کر وہ سیڑھیوں پر نیچے اتر گیا، وہاں اس نے دیوار کے ایک پتھر پر ہاتھ سے دباؤ ڈالا تو سیڑھیوں کے نیچے ہلکی سی گڑگڑاہٹ سنائی دی اور وہاں ایک دیوار کھل گئی۔ وہ جلدی سے کمرے کے اندر چلا گیا لیکن وہاں کوئی سونا نہیں تھا۔ یہ ایک بہت چھوٹا کمرہ تھا۔ اسے بہت غصہ آیا اور اسی عالم میں اس نے دیوار پر ایک پتھر پر زور سے مکا مار دیا۔ اچانک وہاں بھی ایک دروازہ کھل گیا جس سے اندر جاتے ہی اس کی آنکھیں چمکنے لگیں۔ یہ کمرہ سونے اور قیمتی جواہرات سے بھرا ہوا تھا۔ وہ ایک لمحہ دیر کیے بغیر چھلانگ لگا کر سونے کے ڈھیر پر کود گیا اور مٹھی میں چیزیں بھر بھر اپنے سر پر ڈالنے لگا اور بے اختیار چلانے لگا: ’’میں امیر ہو گیا ۔۔۔ میں امیر ہو گیا۔‘‘
اس نے خزانے میں سے چھانٹ کر زمرد اور ہیرے اپنی جیبوں میں بھرے اور پھر اوپر محل کی طرف چلا گیا۔ وہ اتنا بے چین تھا کہ محل کے اندرونی حصے سے باہر نکل کر شکستہ پل پر جا کر کھڑا ہو گیا اور رات کے اندھیرے میں زور زور سے سانسیں بھرنے لگا۔
وہاں سے گزرتے لوگوں کی توجہ اس کی طرف مبذول ہوئی اور وہ ایک دوسرے سے پوچھنے لگے کہ وہ کون ہے۔ لیکن اس نے ہر چیز سے بے نیاز کشتی میں ایک بار پھر جھیل پار کی اور کشتی کو ایک قریبی درخت سے باندھ دیا۔ اس کے بعد وہ تیزی سے فیونا کے گھر کی طرف جانے لگا تاکہ دیکھ سکے کہ وہ کیا کر رہے ہیں اب۔ اس نے دیکھا کہ مائری اور فیونا جبران کے گھر گئے اور وہاں سے ان دونوں کو لے کر فیونا کے گھر کی طرف بڑھے۔ وہاں پہنچ کر مائری نے باقی افراد سے کہا کہ وہ اینگس کے گھر کی طرف چل پڑیں، وہ گھر سے کچھ اٹھا کر لا رہی ہیں۔ ادھر وہ چل پڑے اور ادھر مائری گھر کے اندر جا کر کچھ ہی دیر میں واپس آ گئیں۔ ان کے ہاتھ میں ایک ڈبہ تھا۔ اس وقت باقی افراد دور جا چکے تھے اور مائری اکیلی تھیں۔ ڈریٹن دوڑ کر ان کے پیچھے چلا گیا اور پیچھے سے آواز دے کر پوچھا: ’’ڈبے میں کیا ہے؟ کیا میں دیکھ سکتا ہوں؟‘‘
مائری نے مڑ کر دیکھا تو ڈریٹن کو سامنے پا کر وہ خوف سے برف بن گئیں۔ ان کے منھ سے بہ مشکل نکلا: ’’یہ صرف پائی ہے ڈریٹن، بچوں کے لیے لے جا رہی ہوں۔‘‘
’’پائی؟ اوہ میرا پسندیدہ۔‘‘ اس نے جھپٹا مار کر فیونا کی ممی کے ہاتھ سے ڈبہ چھین لیا، اور کھول کر اپنی انگلیاں اس کے اندر ڈبو دیں، اور پھر باہر نکال لیں۔ اپنی انگلیاں منھ میں ڈال کر وہ بولا: ’’یہ تو بیری کا ذائقہ ہے، واہ۔‘‘
اچانک اس نے ایک پائی اٹھا کر مائری کے سر پر دے مارا۔ وہ چیخ اٹھیں: ’’یہ تم کیا کر رہے ہو؟ تم نے میرے بال خراب کر دیے۔‘‘ ڈریٹن نے سفاکی اور بدتمیزی کی حد کر دی۔ ’’یہ تو کچھ نہیں، یہ دیکھو۔‘‘ اور اس نے ایک اور پائی نکال کر مائری کے چہرے پر پھینک دی۔ اور پھر ایک اور مائری کے سر پر دے ماری۔ وہ چلانے لگیں: ’’رک جاؤ، یہ کیا بدتمیزی کر رہے ہو تم ڈریٹن، رک جاؤ۔‘‘
ڈریٹن نے بدتمیزی سے کہا: ’’اوہ آپ کا حلیہ تو پوری طرح بگڑ چکا ہے، آپ ایسا کریں میرے ساتھ قلعے میں چلیں اور وہاں یہ سب دھو لینا۔‘‘ مائری نے کہا کہ وہ اسے گھر میں بھی دھو سکتی ہیں۔ ڈریٹن نے لپک کر مائری کو بازو سے پکڑا اور چلایا۔ ’’میں کہہ رہا ہوں چلو میرے ساتھ۔‘‘ وہ مائری کو گھسیٹنے لگا تو ان کے منھ سے کراہیں نکل گئیں۔ ان کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر چکی تھیں۔ ڈریٹن نے انھیں بہت تکلیف دی۔ گھسٹتے ہوئے ان کا پورا وجود ہل کر رہ گیا تھا۔ ایسا ان کی زندگی میں کبھی ان کے ساتھ کبھی نہیں ہوا تھا۔ ’’مت گھسیٹو مجھے، رک جاؤ پلیز۔‘‘ وہ روناسی ہو کر بولیں۔ لیکن ڈریٹن غصے سے غرایا: ’’منھ بند کرو اپنا، ایک تو تم عورتیں ہر وقت شکایتیں کرتی رہتی ہو، رونا دھونا ختم نہیں ہوتا تم لوگوں کا۔ اب اگر تم نے منھ سے آواز نکالی تو جھیل کے اندر پھینک دوں گا۔‘‘
(جاری ہے….)