اتوار, نومبر 17, 2024
اشتہار

امریکہ میں صلاحیت اور ہمّت کا امتحان

اشتہار

حیرت انگیز

نیویارک ٹیکس زدہ ہے۔ ہر قدم پر ادائیگی کرنی پڑتی ہے۔

ایئرپورٹ پر سامان رکھنے کے لئے ٹرالی درکار تھی۔ وہ ایک لوہے کی راڈ سے بندھی تھی۔ ہم نے اسے کھینچ کر نکالنے کی بہت کوشش کی۔ ناکام ہوئے، تب ایک امریکن نے بتایا ڈیڑھ ڈالر ڈالیں گے جب باہر نکلے گی۔ ہم ڈالر کو روپے سے ضرب کر کے پریشان ہونے لگے۔ لیکن کوئی اور راستہ نہ تھا۔

نیویارک سے باہر نکلنے کا بھی جرمانہ ہے۔ شہر سے نکلتے ہی ایک پل آ گیا…. ٹرائی برو۔ اسے پار کرنے کے ڈھائی ڈالر ٹیکس۔ اس کا ٹوکن بھی ملتا ہے۔ پل دیکھ کر حیران ہو گئے۔ دریائے ہڈسن پر عظیم الشان بارعب ایسا کہ ہم بھی ڈھائی ڈالر ٹیکس دینے کو آمادہ ہو گئے۔ ہائی وے پر آئے تو بھائی ساڑھے دس ڈالر ادا کر چکا تھا۔ اتنی رقم دینے کے بعد جو سڑک نظر آئی وہ اچھی لگنی ضروری تھی۔ دونوں طرف گھاس کے قطعے، جنگلوں اورباغوں کی بہتات۔ کئی جگہ ” یہاں ہرن ہیں” لکھے دیکھا۔ ہم بار بار اس ہائی وے سے گزرے لیکن ہم نے نہ ہرن دیکھے، نہ کوئی اور جانور۔ امریکی اگر ” یہاں شیر ہے” کا بورڈ لگا دیتا تو بھی کوئی فرق نہ پڑتا۔

- Advertisement -

راستے میں کئی جگہ ہم نے دیکھا پولیس کی گاڑی درختوں کے جھنڈ میں کھڑی ہے۔ اس میں ریڈار لگا ہے رفتار چیک کرنے کا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ عام گاڑیوں میں اینٹی ریڈار لگا ہے۔ جہاں گاڑی پولیس والوں کے ریڈار رینج میں پہنچی اور وارننگ سگنل کی آواز آنے لگی اب ظاہر ہے ایکسیلیٹر پر پاؤں کا دباؤ کم ہوگا۔ رفتار قابو میں آجائے گی اور ٹکٹ سے بچت ہو گی۔
یہ نظام ہمیں پسند آیا۔ جمہوری ملک میں پکڑنے اور بچنے کے مواقع برابر ہونے چاہیں۔

آسمان پر بادل تھے۔ ذرا دیر میں رم جھم بارش ہونے لگی۔ سیاہ سڑک پہلے ہی صاف ستھری تھی اب مزید دھل گئی۔ یہ سب ہمیں متاثر کرنے کے لئے تھا۔ ہم مرعوب ہو گئے۔ ایک آدھ بار شک گزرا کہیں کسی حادثے کا شکار ہو کر جنت تو نہیں سدھار گئے۔ لیکن اعمال پر نظر گئی تو یہ خیال خام نکلا۔

گاڑی ایک جگہ ٹہر گئی۔ یہ ریسٹ ایریا تھا۔ یہاں ریسٹورنٹ تھا۔ چائے، کافی، کولڈ ڈرنک، چپس، ڈونَٹ، برگر…. ڈالر کے بدلے ملتے تھے۔ باتھ روم مفت تھے۔ ہم نے مال مفت پر حملہ کیا۔

بھائی کے گھر، لاوڈن ول میں جاگنگ کرتے دور نکل گئے۔ نہ گرد و غبار نے منہ ڈھکا نہ تھکن کا احساس ہوا۔ اس بات سے دل خوش نہیں ہوا۔ برسوں کی عادت ایک دن میں کیسے جاتی۔ دھول مٹی نہ ہو پھر کیا لطف۔ تین میل کا چکر لگا کر واپس گھر آئے تو عجیب سی خوشبو نے استقبال کیا۔ بھاوج نے بتایا ” نہاری پک رہی ہے ” ۔ دوسرے دن پائے، تیسرے دن حلیم۔ پھر جو دعوتوں کا سلسلہ چلا تو گردے، کلیجی، مغز، بریانی، فیرنی کے علاوہ کچھ نہ ملا۔ ہماری سمجھ میں نہ آیا ان لوگوں کے نہاری خلوص، پائے محبت، حلیم مہمان داری کو کیسے روکیں؟

امریکہ جانے میں یہ بات بھی پوشیدہ تھی کہ سلاد کھائیں گے، پھلوں کا رس پئیں گے۔ ایک آدھ دبلا کرنے کی دوا استعمال کریں گے تو لوگ چہرے کی شادابی اور جسم کی فٹنس دیکھ کر حیران ہوں گے۔ لیکن امریکہ میں پاکستانی ہمیں نہاری، پائے سے مرعوب کر رہے تھے۔

جس دن ہم امریکہ پہنچے اس کے دوسرے دن بقر عید تھی۔ دوسرے دن دس بجے بھائی ہمیں گاڑی میں سوار کر کے ایک باڑے کی طرف چلا قربانی کے لئے۔

ایک کمرے میں مشین پر گوشت کاٹتا قصائی کھڑا تھا۔ ہمارے بھائی نے کہا: ” قربانی کے لئے بکرا چاہیے۔”

اچانک مشین بند ہو گئی۔ اس نے برابر کے نل سے ہاتھ دھوئے اور جھٹ ہم سے ملا لیا۔ ہمارا ہاتھ چھوڑ کر وہ اندر کے کمرے میں گیا اور ایک بکرے کو کان سے پکڑ لایا۔ مول تول ہونے لگا۔ وہ اسّی ڈالر سے کم پر آمادہ نہ تھا۔ بھائی ضد کرنے لگا۔

قصاب بولا ” میں کچھ اور دے دوں گا۔ ” اتنے میں اندر سے ایک اور بکرا نمودار ہوا۔ قصاب نے اس کی ٹانگ پکڑ لی، ہم سمجھے کچھ اور میں اس کی ٹانگ کاٹ کر دے گا۔ لیکن اس نے ٹانگ چھوڑ کر دائیں طرف سے ایک ڈبہ اٹھا کر دیا۔ اس میں ایک درجن انڈے تھے۔

بھائی نے کہا صرف ایک درجن، قصاب نے ایک ڈبہ اور پیش کر دیا۔ اور بولا۔۔” بس اب چپ رہنا۔”
بھائی نے اسّی ڈالر کا چیک کاٹ کر دیا۔ اسی لمحے بکرے کو زمین پر لٹا کر چھری پھیر دی گئی۔ہمیں ایک ڈر تھا۔ یہ سارا گوشت، پائے، مغز، گردوں اور کلیجی کے ساتھ کھانا پڑے گا اور آنے والے دنوں میں ایسا ہی ہوا۔ وہ سارا گوشت ہمارے گوشت میں آ ملا۔ اور اب ساتھ لئے پھرتے ہیں۔

شوکت صاحب ہمارے بھائی کے سسر ہیں۔ انہیں سیر و سیاحت کا شوق ہے۔ اب پروگرام بننے لگا کہ کھلی فضا میں پکنک منائی جائے بھلا ہمیں کیا اعتراض۔ جارج لیک کا پروگرام بنا۔ البنی سے ایک گھنٹے کا سفر ہے۔ اس کے لئے شوکت صاحب کے ہم نام شوکت علی خان کو فون کیا گیا کہ ٹرک لے کر آ جاؤ، ہم پریشان ہو گئے ۔ بھلا ٹرک کیا کام۔ پھر اس میں کس طرح بیٹھیں گے۔ شوکت علی خان اپنی ایئر کنڈیشن ٹویوٹا ویگن لے آئے۔ یہ ٹرک تھا۔ شوکت علی خان نے لیک ایک گھنٹے سے پہلے پہنچا دیا۔

یہاں جھیل کی سیر کے لئے چھوٹے چھوٹے خوبصورت جہاز تھے جن میں ایک گھنٹے سے ساڑھے چار گھنٹے کی سیر شامل ہے۔ اس میں جاز اور رقص شامل ہے۔

ہم نے دریافت کیا۔ "رقاصہ ساتھ لانی ہو گی یا جہاز مہیا کرے گا۔”

جواب ملا، ” یہ اپنی صلاحیت اور ہمّت پر ہے۔”

(قمر علی عباسی کے سفر نامہ امریکہ مت جیو سے اقتباس)

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں