اسلام آباد: ایم کیو ایم کے کنوینر خالد مقبول صدیقی نے کہا ہے کہ گزشتہ 4 دن سے ایوان میں جو رہا ہے وہ 2018 میں بھی ہو رہا تھا، لگتا ہے جمہوریت مقدمہ ہار رہی ہے۔
تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ کل اور آج جو تقریریں ہوئیں وہ مفصل ہیں مگر مسائل کا حل نہیں بتایا گیا، ہم نے پاکستان میں بہتری کے لیے تین آئینی ترامیم کی تجاویز دی ہیں، آئین میں صوبوں کو تحفظ دیا گیا اسی طرح ضلعی حکومتوں کو بھی تحفظ دیا جائے۔
انھوں نے کہا اس آئین کو اتنا قابل کیا جائے کہ پاکستان کی جمہوریت کا تحفظ ہو، آئین وفاق اور صوبے کو ایک ہی فارمولے پر وسائل فراہم کرے، بلاول یہاں موجود ہوتے تو پوچھتا 18 ویں ترمیم سے اختیارات نچلی سطح پر کیوں منتقل نہیں ہوئے؟ ان کی بات صحیح سمجھ لی جائے تو 2018 میں جیسے جتوایا گیا تھا 2024 میں ایسے ہی ہروا دیا گیا۔
خالد مقبول صدیقی نے کہا سیاسی جماعتوں میں گفتگو شروع نہیں ہوگی تو پھر ہمیں کوئی اور بٹھائے گا، بات ایوان نہیں باہر ہوگی تو پہلے بھی ہماری آواز توانا رہی ہے،اپنے لیڈر اور پاکستان کا فیصلہ کرنا پڑا تو ہم پاکستان کے ساتھ کھڑے رہے۔
سائفر ایک حقیقت ہے، جنھوں نے سازش کرائی ان کا ٹرائل ہونا چاہیے: بیرسٹر گوہر
انھوں نے کہا 2002 سے 2024 تک ہونے والے انتخابات میں چار ایوانوں نے اپنی مدت پوری کی، 22 سالوں میں چار مختلف جماعتوں نے وفاق میں حکومت بنائی، 10 وزیر اعظم آئے، پہلے عدم تسلسل کی شکایت تھی اب جمہوریت کا تسلسل بھی خوش حالی اور استحکام کی ضمانت نہیں بن سکا۔
خالد مقبول نے کہا ہمیں آئین معذور، قانون مجبور، انصاف مفرور اور عدالتیں یرغمال نظرآتی ہیں، ہم سب یہی کہتے رہے کہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ معاشی، مالی بحران ہے، لیکن سمجھنے کی بات یہ ہے کہ معاشی بحران سے زیادہ نیتوں کا بحران ہے۔