نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
فیونا اور اس کی ممی کی آنکھیں نیند سے بند ہونے والی تھیں جب اچانک فیونا بری طرح چونک اٹھی۔ اسے خیمے کے دروازے کے پاس عجیب سی سرسراہٹ محسوس ہوئی تھی، اور یہ ایسی سرسراہٹ تھی کہ اس کے بدن میں سرد لہر دوڑ گئی تھی۔ اس لیے وہ اچھل کر بیٹھ گئی۔ اس کی ممی نے پوچھا: ’’کیا ہوا فیونا؟‘‘
اس دوران فیونا کی نظریں خیمے کے دروازے پر مرکوز ہو گئی تھیں، اور اس نے ایک بار پھر سرسراہٹ محسوس کی، اس بار یہ بالکل واضح تھی۔ اس نے ممی کو بتایا کہ باہر کچھ ہے، شاید بھوت ہے کوئی اور میں اسے کراہتے ہوئے سن رہی ہوں۔ مائری مک ایلسٹر بھی یہ سن کر اٹھ کر بیٹھ گئیں اور حیران ہو کر بولیں: ’’ایک بھوت؟ وہ بھی ان پہاڑوں میں۔ تمھیں شاید سخت نیند آ رہی ہے، سو جاؤ۔‘‘
’’نہیں ممی، میری نیند پوری طرح اڑ چکی ہے، اور میں اس کی آواز سن رہی ہوں، اس کی آواز ایسی ہے جیسے …‘‘
’’جیسے کہ کیا؟‘‘ ممی نے حیرانی سے پوچھا۔ فیونا نے کہا ’’جیسے کہ بھوت!‘‘ یہ کہہ کر وہ اٹھی اور خیمے کا دروازہ کھول کر سر باہر نکال کر دیکھنے لگی، لیکن اسے وہاں کچھ دکھائی نہیں دیا۔ اچانک اسے اپنی طرف تیزی سے لپکتی کوئی شے دکھائی دی، جو ایک تیز نوکیلی چیخ کے ساتھ خیمے میں گھسی اور دوسری طرف سے نکل گئی۔ مائری اور فیونا گھبرا کر خیمے سے باہر نکل آئے۔ چیخ سن کر پاس کے خیمے سے جونی اور جمی بھی نکل آئے تھے اور پوچھ رہے تھے کہ کیا ہوا۔ فیونا جونی کے پاس جا کر بولی کہ یہاں ایک بھوت ہے جو بہت خوف ناک اور بد صورت ہے۔
جیک نے بھی اپنے خیمے سے سر باہر نکال کر پوچھا کہ کیا ہو رہا ہے، لیکن عین اسی لمحے اس کی آنکھوں پر پیلی روشنی کے ایک بادل نے حملہ کر دیا، اور وہ اپنے خیمے میں پیچھے کی طرف جا گرا۔ اس کے اوپر کوئی شے چکرانے لگی اور کان پھاڑنے والی ایک تیز چیخ سنائی دی۔ جیک گھبرا کر خیمے سے باہر نکل آیا اور چلا کر بولا: ’’وہ میری خیمے کے اندر ہے۔‘‘
پھر وہاں دو اور بھیانک شکلیں نمودار ہو گئیں، ایک ہلکی سبز اور دوسری ارغوانی سرخ رنگ کی، دونوں ان کے سامنے وہاں چکر کاٹنے لگی تھیں جہاں انھوں نے آگ جلائی تھی۔ اینگس بھی اپنے خیمے سے نکل آئے تھے۔ وہ سب ایک جگہ کھڑے ہوئے اور صورت حال کو سمجھنے کی کوشش کرنے لگے۔ انھوں نے دیکھا کہ بھوت ان کے خیموں کے اندر گھس گھس کر کچھ شاید ڈھونڈ رہے تھے، انکل اینگس نے کہا ’’ایسا لگتا ہے بھوت خیموں میں جادوئی گیند اور کتابیں تلاش کر رہے ہیں۔‘‘ اینگس فوراً اپنے خیمے میں گھسے اور برف والا باکس اٹھا کر باہر لائے اور اس کے اوپر بیٹھ گئے۔
سرخ ٹوپی والا بھوت ان کے سروں پر آ کر اڑنے لگا، اور ٹوپی اتار کر اسے نچوڑا تو اس سے خون کے قطرے ان کے اوپر گرنے لگے۔ وہ خوف زدہ اس کی طرف دیکھنے لگے۔ ایک بھوت نے ایک بچے کو پکڑا ہوا تھا، وہ ان کے قریب آیا تو بچے نے اچانک خون کی الٹیاں کیں اور چیختے ہوئے زمین پر گر گیا۔ یہ بہت خوف ناک منظر تھا جس نے سب کے دل دہلا دیے۔ بھوت شاید انھیں خوف زدہ کرنا چاہتے تھے اس لیے عجیب و غریب حرکتیں کر رہے تھے۔ فیونا ایسے میں بولی کہ انھیں اب گھر چلے جانا چاہیے، یہاں مزید وقت گزارنا مشکل ہو گیا ہے۔ سب نے اس کی تائید کی، اور سب مل کر سامان جمع کر کے گاڑیوں میں بھرنے لگے۔ اس دوران بھوت ان کے سروں پر اڑتے رہے اور بھیانک آوازوں سے چیختے رہے۔ کچھ ہی دیر میں وہ گاڑیاں اسٹارٹ کر کے روانہ ہو گئے اور راستے میں ڈریٹن کی گاڑی کے پاس سے بھی گزرے۔ جب وہ انکل اینگس کے گھر پہنچے تو صبح کے تقریباً 5 بج چکے تھے۔
۔۔۔۔۔
دوسری طرف ڈریٹن بھی چوری شدہ کار کو واپس اینور البا لے گیا اور وہاں دریائے البا کے پل پر گاڑی سے اتر کر اسے دھکا دیتے ہوئے نیچے گرا دیا، گاڑی ایک زبردست چھپاکے سے دریا میں جا گری، اور بہہ کر جانے لگی۔ اسے آرام کی طلب ہو رہی تھی لیکن اس نے سوچا کہ قلعے کے ٹھنڈے فرش نے اسے بیمار کر دیا ہے، اب کسی مقامی ہوٹل میں کمرہ لے لینا چاہیے، امید ہے کہ ایلسے خاتون نے اس کا نام پھیلایا نہ ہوگا۔ صبح نمودار ہونے کو تھی جب وہ ایک ہوٹل کے پاس جا پہنچا، چوں کہ اس کے پاس کافی رقم تھی اس لیے ہوٹل کے کلرک نے اس وقت اس کی مشکوک آمد پر کوئی سوال جواب نہیں کیا اور اسے ایک کمرہ دے دیا۔ کمرے میں پہنچتے ہی وہ بستر پر لیٹ کر سو گیا۔