ہفتہ, جولائی 5, 2025
اشتہار

ارنسٹ ٹرمپ: ہندوستان میں زبان و ادب کے لیے خدمات انجام دینے والا جرمن مستشرق

اشتہار

حیرت انگیز

متحدہ ہندوستان میں‌ قیام کے دوران ارنسٹ ٹرمپ نے فارسی، عربی اور متعدد مقامی زبانیں ہی نہیں سیکھیں بلکہ مقامی ادب اور ثقافت کے شعبے میں بھی خدمات انجام دیں۔ مشہور ہے کہ ارنسٹ ٹرمپ پہلا غیرملکی تھا جس نے سب سے پہلے سندھ کے مشہور صوفی شاعر شاہ عبداللطیف بھٹائی کی کتاب شاہ جو رسالو کی تدوین اور اس کی اشاعت کا اہتمام کیا تھا۔

ارنسٹ ٹرمپ ایک جرمن مستشرق تھا۔ اس نے ہندوستان میں‌ ایک مشنری کی حیثیت سے قدم رکھا اور برطانوی راج میں وہ پنجاب اور سندھ کے مختلف شہروں کے علاوہ پشاور میں قیام پذیر رہا۔ ارنسٹ ٹرمپ نے اس عرصہ میں گراں قدر علمی اور ادبی کام کیا اور کئی کتابیں اس کے ذوق و شوق اور محنت و لگن کا نتیجہ ہیں۔

جرمن مستشرق ارنسٹ ٹرمپ نے 1828ء میں آنکھ کھولی۔ اس کا باپ جارج تھامس کار پینٹر اور ایک کاشت کار تھا۔ ارنسٹ ٹرمپ کو نوعمری ہی میں مختلف زبانیں سیکھنے کا شوق ہوگیا۔ اس نے لاطینی، یونانی، عبرانی زبانیں سیکھنے کے بعد جب ایک مبلّغ کی حیثیت سے ہندوستان کا رخ کیا تو یہاں‌ عربی اور فارسی کے علاوہ سنسکرت اور متعدد دوسری یورپی زبانیں بھی سیکھیں۔ اس سے قبل ارنسٹ ٹرمپ جرمنی سے لندن گیا تھا اور وہاں ایسٹ انڈیا ہاؤس میں اسٹنٹ لائبریرین کی ملازمت کے دوران جب وہ 30 سال کا تھا، تو اسے ہندوستان جانے کا موقع ملا۔ ارنسٹ ٹرمپ پہلے بمبئی میں کچھ عرصہ رہا اور بعد میں کراچی منتقل ہوگیا۔ اس شہر میں ارنسٹ کو مقامی زبانوں نے اپنی جانب متوجہ کیا اور سب سے پہلے اس نے سندھی زبان سیکھنا شروع کی۔ بہت قلیل مدت میں ارنسٹ سندھی بولنے اور لکھنے کے قابل ہوگیا۔ وہ سیر و سیاحت کا دلدادہ تھا جس کا ایک مقصد تبلیغ اور دوسرا یہاں کی ثقافت کا مطالعہ کرنا تھا۔ ارنسٹ ٹرمپ نے سندھ کے مختلف علاقوں میں سیاحت کے دوران شاہ عبداللطیف بھٹائی کا کلام سنا تو بہت متاثر ہوا۔ اسے صوفیانہ کلام میں غیر معمولی کشش محسوس ہوئی۔ ارنسٹ ٹرمپ اندرونِ سندھ عام لوگوں سے میل جول کے ساتھ شاہ عبداللطیف کے ارادت مندوں اور خانقاہوں سے وابستہ شخصیات کے ساتھ وقت گزارنے لگا جہاں سندھ کے معروف اور غیرمعروف گائیک شاہ صاحب کا کلام گاتے نظر آتے تھے۔ ارنسٹ ٹرمپ نے شاہ عبد اللطیف بھٹائی کا کلام جمع کرنا شروع کیا۔ لوگوں سے سن کر ان کے اشعار لکھنے کے علاوہ اس نے مختلف رسائل کا مطالعہ کرکے اچھا خاصا کلام اکٹھا کرلیا۔ بعد میں وہ سندھ کو چھوڑ کر چلا گیا۔ 1866ء میں اس نے ایک مضمون کے ساتھ شاہ لطیف بھٹائی کا کلام شاہ جو رسالو کے نام سے چھپوایا۔ ارنسٹ ٹرمپ کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے شاہ عبد اللطیف بھٹائی کے کلام کا جائزہ لیتے وقت اس وقت کے معروضی حالات، سیاسی واقعات، معاشی و معاشرتی کیفیت، عام لوگوں کی مشکلات، حکم رانوں کی کوتاہیوں اور اس وقت کی معاشرتی اخلاقی حالت کو بھی پیشِ نظر رکھا تھا۔

ارنسٹ ٹرمپ نے شاہ جو رسالو کو قدیم مروجہ رسمُ الخط میں شائع کیا تھا۔ کراچی کے بعد پشاور میں سکونت اختیار کرنے کے دوران اس نے پشتو زبان بھی سیکھی۔ 1870ء میں برطانوی سرکار نے ارنسٹ ٹرمپ سے سکھوں کی مذہبی کتاب گرو گرنتھ صاحب کا ترجمہ بھی کروایا جس نے مقامی سکھوں میں بھی اسے شہرت دی۔ 1873ء میں وہ میونخ یونیورسٹی میں سامی زبانوں کا پروفیسر مقرر ہوگیا۔ عربی اور دیگر سامی زبانوں میں ارنسٹ ٹرمپ کو ماہر تسلیم کیا جاتا تھا۔ آخر عمر میں ارنسٹ ٹرمپ کی بینائی جاتی رہی اور اس کی زندگی تکلیف دہ ثابت ہوئی۔

ارنسٹ ٹرمپ کئی کتابوں کا مصنف تھا جن کا تعلق زبان اور قواعد سے تھا۔ سندھی حروف اور گرامر کی پہلی کتاب لکھنے کے علاوہ ارنسٹ ٹرمپ نے پشتو زبان کی تفہیم کے لیے بھی کتاب تحریر کی اور یہ سب اس نے اپنی صلاحیتوں اور لگن کی بنیاد پر کیا تھا۔

5 اپریل 1885ء کو انتقال کرنے والے ارنسٹ ٹرمپ کو آج بھی زبانوں کے تاریخی اور تقابلی مطالعہ کے ماہر اور اس کے علمی کارناموں کے سبب یاد کیا جاتا ہے۔

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں