سندھی افسانوی ادب میں اپنی تخلیقات کی بدولت نام و مقام بنانے والے ادیبوں میں لعل چند امر ڈنومل بھی شامل ہیں جو تقسیمِ ہند کے بعد بھارت چلے گئے تھے۔ لعل چند امر ڈنومل کو سندھی زبان و ادب میں ناول نگار، مؤرخ، ڈراما نویس، سیرت و مضمون نگار کی حیثیت سے اہمیت حاصل ہے۔ وہ 62 سے زائد کتابوں کے مصنّف تھے۔ لعل چند امر ڈنومل 18 اپریل 1954ء کو بھارت کے شہر بمبئی میں چل بسے تھے۔ ان کی وصیت تھی کہ ان کی راکھ کو پاکستان میں حیدرآباد سندھ کے قریب دریائے سندھ میں بہایا جائے جس پر عمل کیا گیا۔
لعل چند امر ڈنومل 25 جنوری 1885ء کو اس وقت بمبئی پریزیڈنسی میں شامل حیدرآباد شہر میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد دیوان امر ڈنومل حیدرآباد میں مختار کار تھے۔ لعل چند کی ابتدائی گھر پر ہوئی اور بعد میں وہ ہیرا نند اکیڈمی میں داخل کیے گئے۔ تعلیمی مراحل طے کرنے کے بعد 1903ء میں لعل چند امر ڈنومل سندھ مدرسۃُ الاسلام میں استاد مقرر ہوگئے۔ لعل چند امر ڈنومل کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ ایک صوفی منش تھے اور وہ قوم یا ذات پات اور رنگ و نسل کی تفریق تو کجا مذہبی عصبیت سے بھی دور تھے۔ وہ انسانیت پر یقین رکھنے والے ایسے قلم کار تھے جسے اپنی جائے پیدائش اور سندھ سے بہت محبّت تھی۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کی وصیت تھی کہ بعد از مرگ ان کی راکھ حیدرآباد کے قریب دریائے سندھ میں بہائی جائے۔
آج لعل چند امر ڈنومل کے نام اور سندھی زبان و ادب کے لیے ان کی خدمات اور کاوشوں سے کون واقف ہے؟ مگر سندھ کی تاریخ بالخصوص سندھی ادب سے متعلق کتب میں لعل چند امر ڈنومل کے بارے میں ضرور پڑھنے کو ملے گا۔ لعل چند امر ڈنومل کا فلسفۂ حیات اور ان کے خیالات انھیں اس دور کے ہم عصروں سے ممتاز کرتے ہیں کیوں کہ وہ اپنے دور کے تمام مذاہب کو انسانیت کی میراث اور معاشرتی سدھار کا وسیلہ تصوّر کرتے تھے۔ اس ادیب نے کسی قسم کی مذہبی تفریق اور اونچ نیچ کو قبول نہ کیا اور اپنے عمل سے ثابت کیا کہ وہ ایک غیرمتعصب اور پاکیزہ خیالات کے حامل شخص ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لعل چند امر ڈنومل نے پیغمبر اسلام کی سوانح اور سیرت پر بھی کتاب لکھی تھی۔
فکشن کی بات کی جائے تو لعل چند امر ڈنومل نے فکشن کی ہر صنف پر کتابیں لکھیں جو بہت اہم ہیں۔ ان کے طبع زاد ناولوں میں چوتھ جو چنڈ (چودھویں کا چاند)، سچ تے صدقے (سچائی پر قربان)، کشنی کے کشٹ و دیگر شامل ہیں۔ لعل چند امر ڈنومل نے دوسری زبانوں سے سندھی میں تراجم بھی کیے جو شایع بھی ہوئے۔ سندھ کے صوفی شاعر شاہ عبد اللطیف بھٹائی اور سچل سرمست کی شخصیت اور شاعری پر بھی لعل چند نے کتابیں لکھیں۔ ان کے سندھی زبان میں مضامین کو بیرنگی باغ جو گل کے عنوان سے کتاب میں بہم کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ دیگر کتابوں میں ہندوستان جی تاریخ، حیدرآباد سندھ، میراں، شاھ جا کی سُر، سامی جا سلوک، رام بادشاہ، جیل جی ڈائری، سندھی بولی جو نچوڑ وغیرہ شامل ہیں۔