اتوار, مئی 25, 2025
اشتہار

دلّی کی وہ تاریخی مساجد جنھیں بادشاہوں یا شاہی خاندان کی شخصیات نے تعمیر کروایا

اشتہار

حیرت انگیز

برصغیر میں مغل بادشاہت قائم ہونے سے پہلے دہلی پر مسلمانوں کی حکومت رہی اور سلطان شہاب الدّین غوری کے ہندوستان کا رُخ کرنے کے بعد یہاں‌ مختلف عمارتوں کے ساتھ خاص طور پر مساجد بھی تعمیر گئیں۔ اس زمانے کی اکثر آج نہایت شکستہ حالت میں‌ ہیں لیکن مغلیہ دور میں دہلی میں تعمیر ہونے والی بعض‌ مساجد کسی حد تک بہتر حالت میں‌ ہیں۔ یہ ایسی ہی چند قدیم مساجد کا تذکرہ ہے۔

مسجدِ قوّتُ اسلام
دہلی میں‌ پہلے پہل 1191ء میں مسلمانوں‌ کی حکومت قائم ہوئی تو مہرولی کو انھوں‌ نے بھی اپنا پایۂ تخت بنایا۔ پرتھوی راج کا 1143ء میں بنوایا ہوا ایک مندر وہاں‌ پہلے سے موجود تھا جس میں پوجا کرنے والے اب نہیں‌ رہ گئے تھے۔ بادشاہ قطب الدّین ایبک نے اس مندر توڑ پھوڑ کر برباد کرنے یا اسے کسی دوسرے کام میں‌ لانے کے بجائے مسجد میں تبدیل کرنے کا حکم دے دیا تاکہ عبادت خانہ عبادت کرنے والوں کے بدل جانے کے بعد بھی عبادت خانہ ہی رہے۔

جب یہ مسجد بنائی گئی تو قطب الدّین نے اس کے پورب والے دروازے پر فتحِ دلّی کی تاریخ‌ کندہ کروا دی۔ سلطان قطب الدّین کے وقت اس مسجد کی لمبائی 72 گز اور چوڑائی 50 گز تھی۔ (چند برس بعد اس کی عمارت میں مزید تبدیلیاں‌ کی گئیں)

پرانے قلعے کی مسجد
پرانے قلعے کی مسجد کے بارے میں دو نظریے ہیں۔ ایک یہ کہ اسے شیر شاہ سوری نے 1541 میں‌ بنوایا تھا اور دوسرا نظریہ یہ ہے کہ اسے خود ہمایوں‌ بادشاہ نے بنوایا تھا۔

مسجد کے سامنے کا حصّہ لال پتھر کا بنا ہوا ہے اور اس میں سنگِ مرمر کا استعمال بھی ہے۔ قرآن کی آیتیں‌ اور بیل بوٹے پتھروں‌ کو کاٹ کر بنائے گئے ہیں۔ اس مسجد کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس کے اندر طاقوں‌ اور دروں کے اوپر دوسری مسجدوں کے برخلاف آںحضرت صلّی علیہ وسلم سے پہلے کے انبیاء مثلاً حضرت آدم، حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ‌ وغیرہ کے نام بھی کندہ ہیں۔

مسجد خیرُ المنازل
1561ء میں‌ اکبر بادشاہ کی انّا ماہم بیگم نے پرانے قلعے کی فصیل کے باہر ایک مسجد اور اس میں ایک مدرسہ بنوایا تھا جسے خیر المنازل کہا جاتا ہے۔ یہ چونے اور لال پتھر سے بنی ہوئی بہت خوب صورت عمارت تھی۔ خیرالمنازل تاریخی نام ہے۔ مسجد کی پیشانی پر فارسی زبان میں ایک کتبہ لگا ہوا ہے۔

جامع مسجد شاہجہانی
شاہ جہاں‌ کی بنوائی ہوئی یہ مسجد شہر کے بیچوں بیچ ایک چھوٹی سی پہاڑی پر واقع ہے۔ مگر وہ پہاڑی مسجد کے رقبہ میں ایسی گم ہوئی کہ نظر نہیں‌ آتی اور اب اس کی کرسی کا کام دیتی ہے۔

جامع مسجد کی بنیاد 1650ء میں پڑی۔ اس مسجد میں روزانہ پانچ ہزار راج مزدور اور سنگ تراش کام کرتے تھے۔ یہ مسجد چھے سال میں یعنی 1656ء میں دس لاکھ روپے کے خرچ سے تعمیر ہوئی۔

مسجد فتح پوری
یہ مسجد شاہ جہاں‌ کی بیوی نواب فتح‌ پوری بیگم نے بنوائی تھی جو 1650ء میں بن کر تیّار ہوئی۔ یہ مسجد ساری کی ساری لال پتھر کی ہے اور اس کا گنبد بھی اسی پتھر کا ہے۔

موتی مسجد
یہ مسجد لال قلعہ کے اندر ہے اور مسجدِ‌ بیت کی حیثیت رکھتی ہے۔ شاہ جہاں کے زمانے میں لال قلعہ میں‌ کوئی مسجد نہیں تھی اور بادشاہ جامع مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے جاتا تھا۔ بعد میں اورنگزیب نے قلعہ میں باغ حیات بخش سے متصل یہ مسجد بنوائی۔ چھوٹی ہونے کے باوجود اس میں‌ مسجد کے تمام اوصاف موجود ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ اس مسجد کی تیاری میں ایک لاکھ ساٹھ ہزار روپے خرچ ہوئے تھے۔

مسجد زینتُ‌ المساجد
یہ مسجد لال قلعہ کے باہر جنوب مغرب کی طرف دریا کے کنارے ہے۔ اسے عالمگیر کی بیٹی زینت النساء بیگم نے 1710ء میں‌ بنوایا تھا۔ اور اس میں‌ اپنے دفن ہونے کی جگہ بھی رکھی تھی۔ بعد میں‌ وہیں پر دفن ہوئی۔ یہ مسجد بہت خوب صورت ہے اور پوری لال پتھر کی ہے۔

مسجد شرف الدّولہ
یہ مسجد دریبے کے بازار میں ہے۔ اس مسجد کو شرف الدّولہ نے محمد شاہ بادشاہ کے عہد میں 1722ء میں‌ بنوایا تھا۔ یہ مسجد چونے اور اینٹ کی بنی ہوئی ہے۔

(ماخوذ:‌ دہلی کی چند تاریخی عمارتیں، مؤلفہ زہرہ مشیر )

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں