بہت دنوں پہلے کسی گاؤں میں ایک مچھیرا رہتا تھا۔ اس کی ایک بیوی تھی اور ایک لڑکا۔ بیچارہ تھا بہت غریب! لیکن محنت بھی خوب کرتا تھا۔
وہ صبح ہوتے ہی اپنا جال لے کر چھوٹی سی کشتی میں بیٹھ جاتا اور سمندر کی چنچل موجوں سے کھیلتا ہوا دور بہت دور مچھلیاں پکڑنے کے لئے نکل جاتا۔ گھر میں اس کی بیوی بھی محنت کرتی۔ گھر کا کام کاج کرنے کے بعد وہ گرم گرم مزے دار بھجیے بناتی اور بیچنے کے لئے اپنے لڑکے کو دے دیتی۔ وہ ان بھجیوں کو لے کر گاؤں کے گلی کوچوں میں چلا جاتا۔ اس طرح مچھیرے کا یہ چھوٹا سا کنبہ ہنسی خوشی اپنےغریبی کے دن گزار رہا تھا۔
ایک روزمچھیرے کا لڑکا بھجیے بیچنے کے لئے گاؤں میں دور نکل گیا۔ جب سب بھجیے بک گئے تو وہ پیسوں کو تھال میں رکھ کر، تھال سر پر اٹھائے اپنے گھر کی طرف چل پڑا۔ گھر دور تھا، دھوپ تیز تھی۔ لڑکا چلتے چلتے تھک گیا۔ راستے میں اسے ایک بڑا سا پتھر دکھائی دیا۔ پتھر کو دیکھ کر اسے خیال آیا کہ اس کے سائے میں کچھ دیر آرام کر لوں۔ یہ سوچ کر اس نے تھال پتھر پر رکھ دیا اور خود پتھر سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔
تھوڑی ہی دیر بعد اس کی آنکھ لگ گئی اور وہ سو گیا۔ کچھ دیر کے بعد جب آنکھ کھلی تو دیکھا کہ تھال خالی ہے اور اس میں ایک بھی پیسہ نہیں۔ اب تو وہ بہت ڈرا کہ اگر خالی ہاتھ گھر گیا تو ماں ناراض ہوگی۔ وہ ادھر ادھر دیکھنے لگا کہ شاید کوئی اس کی مدد کرے لیکن وہاں سوائے گھاس پھونس اور پتھروں کے کچھ بھی نہیں تھا۔
آخر بہت سوچ بچار کے بعد ایک بات اس کی سمجھ میں آئی۔ اس نے جلدی سے خالی تھال ہاتھ میں لیا اور قاضی کے گھر کی طرف بڑھا۔ اس وقت قاضی صاحب اپنے دوستوں سے بات چیت کر رہے تھے۔ جب انہوں نے ایک چھوٹے سے لڑکے کو خالی تھال لئے اپنی طرف آتے ہوئے دیکھا تو انہیں بڑی حیرت ہوئی اور ان کے دوستوں کو بھی تعجب ہوا۔
بچوں کی کہانیاں
لڑکا قاضی صاحب کے سامنے آیا، تھال زمین پر رکھا اور ہاتھ باندھ کر ادب سے کھڑا ہو گیا۔ قاضی صاحب نے مسکرا کر پوچھا، ’’کیوں بیٹا! کیا بات ہے؟ یہاں کیسے چلے آئے؟‘‘
قاضی صاحب کے لہجے میں ہمدردی تھی، محبت تھی اور لڑکا اسی ہمدردی اور محبت کا محتاج تھا۔ اس کی آنکھیں ڈبڈبا آئیں۔ اس نے روتے ہوئے اپنی پوری کہانی انہیں سنانا شروع کی۔ قاضی صاحب اور ان کے دوستوں نے لڑکے کی بپتا کو بڑے غورسے سنا۔ جب اس کی آپ بیتی ختم ہوئی تو چاروں طرف ایک خاموشی چھا گئی۔ قاضی صاحب نے اپنی آنکھیں موند لیں، سر جھکا لیا اور کچھ سوچنے لگے۔ کچھ دیر کے بعد انہوں نے سر اٹھایا، آنکھیں کھولیں اور بڑی متانت اور سنجیدگی سے اپنے سپاہیوں کو حکم دیا۔ ’’اس لڑکے کے ساتھ جاؤ اور اس پتھر کو، جس پر اس نے پیسوں کا تھال رکھا تھا، رسیوں سے جکڑ کر ہماری خدمت میں پیش کرو۔ اس نے اس غریب کے پیسے چرائے ہیں، اس کی محنت چرائی ہے۔ لہٰذا اسے اس جرم کی سزا ملنی چاہیے۔‘‘
قاضی صاحب کے اس حکم پر سپاہیوں کو بڑی حیرت ہوئی۔ وہ سوچنے لگے کہ کہیں پتھر بھی چوری کر سکتا ہے۔ لیکن قاضی صاحب کا حکم تھا، لہٰذا وہ لڑکے کے ساتھ گئے۔ پتھر کو رسیوں سے باندھا اور کھینچتے ہوئے چلے۔ جب گاؤں کے لوگوں نے قاضی کے سپاہیوں کو اس طرح پتھر لے جاتے ہوئے دیکھا تو وہ پوچھنے لگے کہ کیا بات ہے؟ سپاہیوں نے جو سچ بات تھی وہ بتا دی۔ بس پھر کیا تھا آن کی آن میں یہ خبر سارے گاؤں میں پھیل گئی کہ ایک پتھر نے مچھیرے کے لڑکے کے پیسے چرائے ہیں اور اسے انصاف کے لئے قاضی صاحب کی عدالت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ اس خبر کے پھیلتے ہی گاؤں کے سب لوگ عدالت کی طرف چل پڑے اور دیکھتے ہی دیکھتے عدالت کا کمرہ ہجومیوں سے کھچا کھچ بھر گیا۔
قاضی صاحب عدالت میں کرسی پر بیٹھے تھے۔ ان کے سامنے ایک طرف مچھیرے کا لڑکا ہاتھ باندھے کھڑا تھا اور دوسری جانب رسیوں میں جکڑا ہوا پتھر رکھا ہوا تھا۔ قاضی صاحب نے لڑکے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، کیا تمہیں اس بات کا یقین ہے کہ تم نے پیسے تھال میں رکھے تھے اور تھال کو اس پتھر پر رکھا تھا؟‘‘ لڑکے نے بڑے ادب سے جواب دیا، ’’جی حضور، مجھے پورا یقین ہے کہ تھال اس پتھر پر تھا اور پیسے تھال میں تھے۔‘‘
اب قاضی صاحب نے اپنا رخ پتھر کی جانب کیا اور کہا، ’’مدعی نے اس وقت جو کچھ بھی کہا ہے، کیا تمہیں اس سے انکار ہے؟‘‘
قاضی صاحب کے اس سوال پر پوری عدالت میں ایک قہقہہ گونج اٹھا۔ سب آپس میں چہ میگوئیاں کرنے لگے کہ کہیں پتھر بھی چوری کر سکتا ہے؟ کہیں پتھر بھی سوال کا جواب دے سکتا ہے؟ قاضی نے لوگوں سے عدالت کی عزت اور احترام کی خاطر خاموش رہنے کے لئے کہا۔ عدالت میں ایک بار پھر سناٹا چھا گیا۔ جب پتھر کی جانب سے کوئی جواب نہیں ملا تو قاضی صاحب نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا، ’’چونکہ عدالت کے سوال پر پتھر کی خاموشی اپنے جرم کا اقبال کر رہی ہے، اس لئے اپنے جرم کے پاداش میں اسے سو کوڑے لگائے جانے کا حکم دیا جاتا ہے۔‘‘
قاضی صاحب کے اس فیصلہ پر عدالت میں پھر ایک بار قہقہہ کی آواز گونج اٹھی۔ چوبدار نے دوبارہ مجمع کو خاموش رہنے کا حکم دیا۔ عدالت کے کمرے میں ایک بار پھر خاموشی چھا گئی۔ اب پتھر کو عدالت کے بیچوں بیچ لایا گیا۔ اس کی رسیاں کھول دی گئیں۔ سپاہی کا کوڑا اس پر برسنا شروع ہوا۔ کوڑے کی آواز فضا میں کانپنے لگی اور لوگ اس عجیب و غریب سزا پر ہنسنے لگے۔
سزا مکمل ہو گئی۔ قاضی صاحب نے عدالت برخاست کر دی اور جب لوگ باہر جانے لگے تو قاضی صاحب نے اچانک سبھوں کو رک جانے کا حکم دیا اور لوگوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا!’’چوں کہ آپ لوگوں نے عدالت کے کمرے میں بے اختیار قہقہہ لگا کر اس کی توہین کی ہے، لہٰذا ہر شخص کو سزا کے طور پر ایک پیسہ جرمانہ کیا جاتا ہے۔ ایک سپاہی پانی سے بھرا ہوا پیالہ اپنے ہاتھ میں لئے ہوئے دروازہ پر کھڑا رہے گا اور ہر شخص اس پانی سے بھرے ہوئے پیالہ میں ایک پیسہ ڈال کر باہر کی طرف نکل جائے گا۔ حکم کی خلاف ورزی کرنے والے کو سخت سے سخت سزا دی جائے گی۔‘‘
قاضی اپنا حکم سنا کر خاموش ہو گیا۔ عدالت کا کمرہ مختلف شکوک اور شبہات کا مرکز بن گیا۔ سپاہیوں نے مجمع کو ایک قطار کی صورت میں کھڑا کر دیا۔ اب ہر شخص باری باری اس پانی سے بھرے ہوئے پیالہ میں ایک پیسہ ڈالتا اور باہر کی طرف نکل جاتا۔ قاضی صاحب کھڑے یہ تماشا دیکھ رہے تھے۔ ایک شخص پیالہ میں پیسہ ڈال کر باہر نکلنا ہی چاہتا تھا کہ قاضی صاحب نے چلّا کر کہا، ’’اس شخص کو گرفتار کیا جائے۔ سپاہیوں نے اسے فوراً پکڑ لیا اور قاضی کے سامنے پیش کیا۔ عدالت دوبارہ بیٹھی۔ قاضی صاحب نے لوگوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، ’’چور پکڑا گیا اور آپ لوگوں کے سامنے حاضر ہے۔‘‘
اس کے بعد قاضی نے گرفتار شخص سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا، ’’سچ سچ بتاؤ، کیا تم نے اس غریب کے پیسے نہیں چرائے؟ اگر تم نے جھوٹ اور غلط بیانی سے کام لیا تو تمہیں دگنی سزا دی جائے گی۔ ایک چوری کے الزام میں اور دوسرا جھوٹ بولنے کے جرم میں۔‘‘ اس شخص نے فورا اپنے گناہ کو قبول کیا۔ لوگوں کو بڑا تعجب ہوا۔ سبھوں نے مل کر قاضی صاحب سے درخواست کی کہ وہ بتائیں کہ انہوں نے چور کو کیسے پکڑا؟ قاضی صاحب نے کہا، ’’پتھر کو عدالت میں پیش کرنے کا مقصد آپ سبھوں کو یہاں جمع کرنا تھا۔ پتھر سے گفتگو اور اس کی سزا ایک مذاق تھا۔ جس کا مقصد آپ لوگوں کو ہنسا کر توہینِ عدالت کا مجرم قرار دینا تھا اور آپ لوگوں سے جرمانہ وصول کرنے سے مراد چور کو پہچاننا تھا اور وہ مراد حاصل ہو گئی۔ اب آپ پوچھیں گے کہ کس طرح تو وہ بھی سن لیجئے۔ آپ لوگوں نے پانی میں ایک ایک پیسہ ڈال دیا، لیکن کچھ نہیں ہوا اور جب اس شخص نے پانی میں پیسہ ڈالا تو پانی کی سطح پر تیل کی چکناہٹ تیرنے لگی۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ اس کے پیسے پر تیل لگا ہوا تھا اور تیل پر لگا ہوا پیسہ اس کی جیب میں کہاں سے آیا؟ اسی بھجیے کے تھال سے جس میں تیل پیسے پر لگ گیا تھا۔‘‘
قاضی کی یہ بات سن کر سب کو حیرت ہوئی اور وہ قاضی کے فیصلے کی داد دینے لگے۔ اس کے بعد جرمانے کے وہ تمام پیسے مچھیرے کے لڑکے کو دیے گئے۔ اس طرح لڑکا خوش خوش اپنے گھر لوٹا اور چور کو اس کے کئے کی سزا ملی۔
(بچوں کے لیے لکھی گئی اس کہانی کے مصنّف ریاض آفندی ہیں)