پشاور: سانحہ پشاور میں سات دہشتگردوں کی جانب سے ایک منصوبے کے تحت آرمی پبلک اسکول میں داخل ہو کر فائرنگ اور بم دھماکوں سے ایک سو بتیس معصوم بچوں سمیت ایک سو اکتالیس افراد کو شہید کردیا گیا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر جنرل عاصم سلیم باجوہ نے صحافیوں کے ساتھ پشاور مین قائم آرمی پبلک اسکول کا دورہ کیا اور صحافیوں کو گزشتہ روز پیش آنے والے واقعات سے آگاہ کیا۔ اس موقع پر جنرل عاصم باجوہ کا کہنا تھا اسکول پر حملہ ایک عالمی سانحہ ہے جس میں میں ایک سو بتیس بچے شہید کیئے گئے۔ انھوں نے کہا کہ آرمی اور ایس ایس جی گروپ نے کامیاب کاروائی کرتے ہو ئے تمام دہشت گردوں کو ہلاک کردیا تھا۔
انھوں نے صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ دہشتگردوں کی تعداد سات تھی اور وہ اسکول کی عقبی دیوار کو سیڑھی کی مدد سے پھلانگ کر آئے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ دہشتگرد پہلے آڈیٹوریم ہال میں داخل ہوئے اور ہال میں موجود بچوں پر فائرنگ کی تھی جس سے ہال میں موجود بچے جاں بحق ہوگئے۔ جنرل عاصم نے بتایا کہ فوجی جوانوں نے صرف آڈیٹوریم ہال سے سو بچوں کی لاشیں اُٹھائیں ہے جبکہ کنٹین کے پاس بھی دہشت گردوں نے بم نصب کرکے کئی بچوں کو اڑایا دیا تھا۔
انھوں نے مزید کہا کہ دیگر بچوں اور اسکول کے عملے ہال کے باہر، گراونڈ اور ایڈمن آفس کے قریب شہید کیا گیا ہے۔
اے آر وائی نیوز کے نمائندے کے مطابق اسکول میں موجود آڈیٹوریم ہال میں ہر جانب خون ہی خون پہلا ہوا ہے اوربچوں اساتذہ کا سامان بکھرا ہوا ہے۔ دیواروں پر فائرنگ کے نشانات بھی دیکھے گئے ہیں۔
ادھر متاثرہ اسکول کے مناظر بھی انتہائی دل خراش ہیں۔ پشاور کا آرمی پبلک اسکول جو بچوں کی مقتل گاہ بن گیا، جگہ جگہ بکھرے خون نے تباہی کی داستان رقم کردی ہیں۔ لہو رنگ جوتے، خون آلود صفحے، پھٹی ہوئی کاپیاں اور کتابیں یہ ہے پشاورکے آرمی پبلک اسکول کا آڈیٹوریم، جو کہ سفاکیت کی انتہا کی کہانی رقم کررہا ہے۔ جابجا بکھرا لہو، گولیوں سے چھید سے بھری دیواریں، یہ اسکول نہیں معصوم بچوں کا مقتل گاہ ہے۔
ڈیسک پر پھیلا خون اور یہاں رکھا ہے ایڈمٹ کارڈ، کس کو تھی خبر کہ یہ آخری امتحان ہوگا۔ آڈیٹوریم میں ہورہی تھی فرسٹ ایڈ ٹریننگ اور دوسروں کی جان بچانے کو ٹریننگ کرنے والے طلبا اپنی جان ملک پر نچھاور کر گئے۔ پرنسپل کے روم میں بھی تباہی کا عالم ہے۔ علم کا بانٹنا قصور ٹھہرا، پرنسپل جنہیں ریسکیو کرلیا گیا تھا لیکن وہ واپس آئیں کہ میرے اسکول کے بچے ابھی اندر ہیں تو اس جرم میں انہیں زندہ جلا دیا گیا۔
اسمبلی ہال میں جہاں علم کے راہی جاتے تھے اب وہیں موجود ہیں گولیوں کے خول۔یہاں سے کی تھی بھاگنے کی کوشش مگر ظالموں نے دروازے کو ہی دھماکے سے اڑادیا۔