جو لوگ وجد صاحب کو جانتے ہیں وہ یہ بھی جانتے ہوں گے کہ رقص، مصوری اور موسیقی سے ان کو بے پناہ لگاؤ رہا ہے اور یہی وجہ ہے ان کی شاعری اکثر تصویریت اور نغمگی سے معمور نظر آتی ہے۔ وسیع المطالعہ اور فنونِ لطیفہ کے کئی شعبوں کے شناسا وجد نے کئی خوب صورت نظموں کے علاوہ غزلیں بھی کہی ہیں۔
سکندر علی ان کا نام اور تخلّص وجد تھا۔ ان کے قریبی دوستوں نے انھیں آتش مزاج بھی لکھا، انا پرست بھی۔ لیکن وہ خوش مزاج اور وضع دار بھی مشہور تھے۔ وجد نفیس شخصیت کے مالک، تہذیب یافتہ اور بڑے رکھ رکھاؤ والے آدمی تھے۔ ان کی آواز بھی سریلی تھی اور گانے کے ساتھ وجد کو اداکاری کا شوق بھی تھا۔ شاعری کے میدان میں سکندر علی وجد کی نظمیں خاص طور پر قارئین میں مقبول ہوئیں۔
نظم نگار کی حیثیت سے دکن کے دامن میں پوشیدہ تہذیبی خزانے یعنی اجنتا اور ایلورا کے غاروں پر ان کی شاعری کو بہت پسند کیا گیا۔ تاہم وجد کا کلام اسلوب یا کسی خوبی اور لفظیات کے تعلق سے متاثر کن نہیں ہے۔ وجد کو بھی اس بات کا احساس تھا اور ایک موقع پر انھوں نے اپنی شاعری کے بارے میں کہا، "ہر آرٹ کی طرح شاعری بھی شاعر سے پوری زندگی کا مطالبہ کرتی ہے، جو شاعر اس مطالبے کی تکمیل نہیں کرتا اس کی شاعری تشنہ رہ جاتی ہے، مجھے اکثر اس تشنگی کا احساس ہوا ہے، میں اپنی شاعری کو کوئی ادبی کارنامہ نہیں سمجھتا۔ میں اس کی کمزوریوں سے اچھی طرح واقف ہوں۔ اس حقیقت کا بھی شدید احساس ہے کہ یہ شاعری وقت کی ضرورتوں، حوصلوں اور آرزوؤں کی پوری ترجمانی نہیں کرتی۔ اس فرض کو ادا کرنے کے لیے اندازِ فکر، اسلوب، سخن اور زبانِ شعر میں انقلابی تبدیلی کی ضرورت ہے۔”
سکند علی وجدؔ نے 1914ء میں اورنگ آباد میں آنکھ کھولی۔ وہیں ابتدائی تعلیم حاصل کی اور عثمانیہ یونیورسٹی سے بی۔ اے کرنے کے بعد سول سروس کے امتحان میں کام یاب ہو کر سرکاری ملازم ہوگئے، وہ ترقی کر کے ڈسٹرکٹ سیشن جج کے منصب تک پہنچے۔ لہو ترنگ، آفتابِ تازہ، اوراقِ مصور، بیاضِ مریم کے نام سے ان کی شاعری کتابی شکل میں شایع ہوئی۔ وجد 16 جون 1983ء کو انتقال کرگئے تھے۔
وجدؔ نے غزلیں بھی کہیں جن کا موضوع حسن و عشق اور قلبی واردات ہے لیکن اصلاً وہ نظم کے شاعر ہیں۔ اپنے عہد کے سیاسی معاملات اور طبقاتی کشمکس کو بہت خوب صورتی سے وجد نے نظموں میں پیش کیا لیکن ان کی نظموں کے موضوعات محدود نہیں۔ ان کی شاعری کا کینوس بہت وسیع ہے۔ وجدؔ کہتے ہیں، ’’میں نے اظہارِ خیال کے لیے کلاسیکی اسلوب منتخب کیا اور فن شعر کے اصولوں کی پابندی کرنے کی بھی امکانی کوشش کی ہے۔ شاعری میں نئے تجربے کرنے کی مجھے فرصت نہیں ملی۔ میری شاعری، میری زندگی، انسان کی عظمت اور ترقی ہندوستان کی تاریخ و سیاست اور یہاں کے فنون لطیفہ سے طاقت اور حسن حاصل کرتی رہی ہے۔‘‘ رقاصہ، نیلی ناگن، آثارِ سحر، خانہ بدوش، معطر لمحے سکندر علی وجد کی دل کش نظمیں ہیں۔
سکندر علی وجد کی یہ نظم اجنتا کے غاروں کی بہترین عکاسی کرتی ہے:
بہانہ مل گیا اہل جنوں کو حسن کاری کا
اثاثہ لوٹ ڈالا شوق میں فصل بہاری کا
چٹانوں پر بنایا نقش دل کی بے قراری کا
سکھایا گر اسے جذبات کی آئینہ داری کا
دل کہسار میں محفوظ اپنی داستاں رکھ دی
جگر داروں نے بنیاد جہان جاوداں رکھ دی
یہ تصویریں بظاہر ساکت و خاموش رہتی ہیں
مگر اہل نظر پوچھیں تو دل کی بات کہتی ہیں
گلستان اجنتا پر جنوں کا راج ہے گویا
یہاں جذبات کے اظہار کی معراج ہے گویا