پاکستانی فلم انڈسٹری میں کئی حسین اور خوب صورت چہروں نے اس اعتماد کے ساتھ بھی قدم رکھا کہ آج نہیں تو کل وہ ضرور کام یاب ہوں گے اور فلمی ہیرو یا ہیروئن کے طور پر مستقبل میں نام بنا لیں گے۔ بلاشبہ یہ خوب صورت اور باصلاحیت فن کار بھی تھے، اور فلم سازوں نے انھیں موقع بھی دیا، لیکن ان کی فلمیں بری طرح پِٹ گئیں۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان نئے فن کاروں کی قسمت نے ان کا ساتھ نہیں دیا۔ اگر بات کی جائے اداکاراؤں کی تو ان میں بعض خوب صورت چہرے ایسے بھی تھے، جو فلمی دنیا میں کام یاب تو رہے لیکن یہ کام یابی انھیں ثانوی کرداروں یا سائیڈ ہیروئن کے کردار سے آگے نہ لے جاسکی۔
ستّر کی دہائی کی ایک اداکارہ ’’نمو‘‘ بھی ان میں سے ایک ہے جس نے پاکستانی فلمی صنعت میں شہرت تو حاصل کی، مگر ثانوی نوعیت کے کرداروں اور سائیڈ ہیروئن کے طور پر ہی اسے دیکھا جاسکا۔
یہ نورین بٹ تھی جو 3 اگست 1950ء کو لاہور میں پیدا ہوئی، نورین بٹ کے والد شہزادہ محمود متحدہ ہندوستان کے ایک ایسے اداکار اور مصنّف تھے جنھیں راج پال کے نام سے پہچانا جاتا تھا۔ پاکستان بننے کے بعد شہزادہ محمود کراچی آگئے اور بعد میں لاہور منتقل ہوگئے۔ نورین بٹ کو فلم میں کام کرنے کا شوق والد کی وجہ سے ہوا اور وہ قسمت آزمانے کے لیے نگار خانوں کے چکر لگانے لگی۔ موقع ملا تو نورین بٹ نے اسکرین ٹیسٹ دیے، مگر مسترد کر دی گئی۔ حالاںکہ نورین بڑی بڑی آنکھوں والی اور تیکھے نقوش کی لڑکی تھی، مگر فلم سازوں اسے کام دینے کو تیار نہیں تھے۔ نمو مسلسل قسمت آزماتی رہی اور پھر شباب پروڈکشنز کی فلم ‘فسانہ دل’ میں اسے اداکار ندیم کے مدِمقابل نِمو کا نام دے کر بہ طور ہیروئن کاسٹ کر لیا گیا۔ اداکارہ نورین کو یہ نام شباب کیرانوی نے دیا تھا اور اس فلم میں سائن کرتے وقت شباب کیرانوی نے یہ شرط رکھی تھی کہ نمو پانچ سال تک کسی اور فلم ساز کی فلم میں کام نہیں کرے گی۔ یہ بات نمو کو پسند نہ آئی اور اس نے شباب کیرانوی کو انکار کردیا جس کا نتیجہ کاسٹ سے اسے الگ کیے جانے کی صورت میں نکلا۔ بعد میں نمو کی جگہ دیبا بیگم کو اس فلم کی ہیروئن کاسٹ کیا گیا۔
یہ ایک بڑی بات تھی کہ وہ لڑکی جسے ابھی انڈسٹری میں کوئی کام نہیں دے رہا اور شباب کیرانوی جیسے بڑے فلم ساز کی آفر کو اس نے یوں قبول کرنے سے انکار کردیا ہے، تو دوسرے فلم ساز بھی اس کی طرف متوجہ ہوئے۔ بظاہر تو نمو نے اپنے پیروں پر گویا کلہاڑی مار لی تھی لیکن اس کی یہ جرأت ایک چانس بن گئی۔ فلم ساز اور ہدایت کر اسلم ڈار نے اسے اپنی فلم ’’سخی لٹیرا‘‘ میں کاسٹ کرلیا۔ سخی لٹیرا میں اداکارہ نے بہ طور سائیڈ ہیروئن کام کرکے شائقین کی توجہ حاصل کرلیا۔ یہ کام یاب فلم 1971ء میں پیش کی گئی۔ فلم ’’سخی لٹیرا‘‘ کے بعد اسلم ڈار کی سسپنس سے بھرپور فلم ’’مجرم کون‘‘ میں نِمو کو ایک اہم کردار میں پیش کیا گیا۔ یہ فلم اگست 1971ء میں کراچی کے ریگل سنیما میں نمائش پذیر ہوئی۔ وہ اسلم ڈار کی فلموں سے شہرت پانے لگی۔ اداکار سلطان راہی کو بامِ عروج پر پہنچانے والی فلم بشیرا تھی۔ اس میں اداکارہ نِمو کو سلطان راہی کی لڑاکا بیوی کا کردار نہایت عمدگی سے نبھاتے ہوئے دیکھا گیا۔ اردو فلم زرق خان میں نمو نے زبردست اداکاری کی۔ 1974ء میں اسلم ڈار کی رومانوی نغماتی اردو فلم ’’دل لگی‘‘ میں اداکارہ شبنم، ندیم، نیر سلطانہ اور دیگر بڑے ناموں کے درمیان اداکارہ نِمو نے بھی اپنی برجستہ اداکاری سے فلم بینوں کے دل جیتے۔ اس فلم میں نمو نے اپنی بڑی بڑی اور گہری آنکھوں سے خوب کام لیا کہ جب جب یہ کردار خاموش رہتا تو فلم بینوں کو اس کی آنکھیں بولتی دکھائی دیتیں۔
اداکارہ نمو نے اپنے کیریئر میں 113 فلموں میں مختلف کردار نبھائے۔ اردو کے علاوہ نمو نے پنجابی اور چند پشتو فلموں میں بھی اداکاری کی۔ نمو نے زیادہ تر ثانوی اور سیکنڈ ہیروئن کے رول کیے اور انھیں اکثر ماڈرن اور گلیمر کرداروں میں پسند کیا گیا۔ 1977ء میں ہدایت کار نذرُ الاسلام کی بلاک بسٹر اردو فلم ’’آئینہ‘‘ میں اداکارہ نمو نے ایک نہایت ماڈرن اور ہائی سوسائٹی کی عورت کا رول کیا تھا جس کا شوہر تاش اور شراب کی محفلوں میں اسے ساتھ رکھتا ہے۔ اداکارہ نمو نے چاہت، ننھا فرشتہ، فرض اور مامتا، شیریں فرہاد، نیک پروین، سنگم، پیار کا وعدہ، آواز، قربانی، دو دل اور دیگر فلموں میں کام کرکے شہرت پائی۔ اس کی پنجابی فلموں میں حشر نشر، کل کل میرا ناں، ڈنکا، دادا، انتقام دی اگ، خون دا دریا، شرابی، بابل صدقے تیرے، ہتھکڑی، میڈم باوری شامل ہیں۔
اداکارہ نے فلمی دنیا میں نام بنانے کے بعد شادی کی تھی لیکن ان کے مطابق وہ خود غرض اور لالچی شخص تھا جس سے انھوں نے علیحدگی حاصل کر لی تھی۔ بعد میں دوسری شادی کرکے وہ فلمی دنیا سے کنارہ کش ہوگئیں۔ 16 دسمبر 2010ء کو نورین بٹ المعروف نمو لاہور میں وفات پاگئی تھیں۔