ہفتہ, ستمبر 28, 2024
اشتہار

ورلڈ کپ: نام کے ان شاہینوں سے قوم امید لگاتی ہی کیوں ہے؟

اشتہار

حیرت انگیز

وہی ہوا جس کا ڈر نہیں بلکہ یقین تھا اور جس خطرے کا تجزیہ کار عرصے سے شور کر رہے تھے، وہ پاکستان ٹیم کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں پہلے ہی راؤنڈ کے تمام ہونے پر بھیانک تعبیر کی صورت سامنے آ گیا۔ یوں بڑے دعوؤں کے ساتھ امریکا جانے والی گرین شرٹس کی امریکا یاترا صرف 10 دن میں ہی ختم ہوگئی جس کے بعد ہمارے ’’سپر اسٹار‘‘ خالی ہاتھ وطن واپس لوٹنا شروع ہوگئے ہیں جب کہ کپتان سمیت چند کھلاڑیوں نے اپنا قیام امریکا میں طویل کر دیا ہے۔

جس چیز کا آغاز اچھا نہ ہو اس کا انجام بھی اچھا نہیں ہوتا اور یہی ہوا ٹی 20 ورلڈ کپ میں پاکستان کرکٹ ٹیم کے ساتھ، پاکستان ٹیم جس کو شاہین اور گرین شرٹس کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، یوں تو شکست کی دلدل میں گزشتہ 7 ماہ سے پھنسی ہوئی ہے لیکن جو حال آئی سی سی ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں اس کا ہوا۔ ہمارے شاہین بڑے دعوؤں کے ساتھ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں شریک ہوئے تھے لیکن صرف نام کے شاہین ثابت ہوئے اور ان کی کارکردگی دیکھنے کے بعد قوم یہ کہنے پر مجبور ہے کہ ان کی مثال اس کرگس جیسی ہے جس کا جہاں ہی اور ہے اور جو ہمیشہ دوسروں کے شکار اور مردار پر نظریں رکھتا ہے۔

ہمارے قومی شاعر علامہ اقبال جن کے اشعار میں ہمّتِ مرداں، مددِ خدا کا پیغام پنہاں ہوتا ہے اور انہوں نے ہمیں ہمت، جذبے اور اونچی اڑان کی ترغیب دینے کے لیے اپنے اکثر اشعار میں شاہین کی صفات کو اجاگر کیا ہے۔ اسی حوالے سے شاعر مشرق کا ایک شعر بہت مشہور ہے:

- Advertisement -

پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
کرگس کا جہاں اور ہے، شاہیں کا جہاں اور

افسوس ہماری ٹیم جس کو شاہین ہونا چاہیے تھا، اب قوم کی نظر میں ایک کرگس کی طرح ہے۔ کرگس کو عام زبان میں گدھ کہا جاتا ہے اور شاہین و گدھ اپنی صفات میں ایک دوسرے کے بالکل الٹ ہیں۔ شاہین اپنے زور بازو پر یقین کرتا، ہمیشہ بلند پرواز رکھتا اور اپنا شکار خود کرتا ہے جب کہ کرگس (گِدھ) کی فطرت ہمیشہ دوسرے کے چھوڑے ہوئے شکار اور مُردار پر ہوتی ہے اور ہماری آج کی کرکٹ ٹیم کی حالت کچھ ایسی ہی ہے۔ یہ اس لیے کہا جارہا ہے کہ ہماری ٹیم ہر بڑے ایونٹ میں آگے بڑھنے کے دیگر ٹیموں پر انحصار کرتی ہے اور کرکٹ کی محبت میں ہمیشہ بے وقوف بننے والے شائقین کرکٹ بھی یہ جیت جائے، وہ ہار جائے، بارش ہو جائے، بارش نہ ہو جیسی دعاؤں اور فضول باتوں میں اپنا وقت ضائع کرتے ہیں۔

یوں تو پاکستان کرکٹ ٹیم ون ڈے کی عالمی چیمپئن ہونے کے ساتھ ساتھ، ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کی فاتح اور چیمپئنز ٹرافی بھی جیتی ہوئی ہے اور اس کا شمار آج بھی دنیائے کرکٹ کی بڑی ٹیموں میں کیا جاتا ہے، لیکن جس شرمناک طریقے سے یہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ سے باہر ہوئی ایسا اس میگا ایونٹ کی تاریخ میں اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا۔ 2009 کی عالمی چیمپئن، تین بار فائنل اور چھ بار سیمی فائنل کھیلنے کا اعزاز پانے والی اس ٹیم کی حالت یہ ہوگئی کہ رواں ورلڈ کپ میں امریکا جیسی نو آموز ٹیم کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے، بھارت سے جیتا ہوا میچ اس کو فتح کی طشتری میں سجا کر پیش کر دیا یوں وہ پہلی بار ورلڈ کپ کے ابتدائی راؤنڈ میں ہی میگا ایونٹ سے باہر ہوئی لیکن آخری میچ جو آئرلینڈ سے ساکھ بچانے کے لیے کھیلنا تھا وہ بھی بڑی مشکل سے گرتے پڑتے جیتا۔

ٹیم میں اندرون خانہ کیا کچھڑی پک رہی ہے یہ تو شائقین کرکٹ کو ورلڈ کپ سے کئی ماہ قبل ہی معلوم ہوگیا تھا جب ون ڈے ورلڈ کپ میں ٹیم کی خراب پرفارمنس کے بعد پس پردہ دباؤ میں آکر بابر اعظم نے قیادت سے استعفیٰ دیا تو شاہین شاہ کو جھٹ پٹ ٹی ٹوئنٹی کا کپتان بنا دیا گیا اور مدت ورلڈ کپ تک رکھی گئی لیکن پھر اچانک صرف ایک دورہ نیوزی لینڈ میں ناکامی کو جواز بناتے ہوئے قیادت ان سے چھین کر دوبارہ بابر اعظم کے سپرد کر دی گئی جب کہ اس دوران محمد رضوان کا نام بھی کپتانی کے لیے گردش کرتا رہا۔ یوں گزشتہ سال جس ٹیم میں بابر اعظم کو آرام دے کر شاداب خان کو افغانستان کے خلاف سیریز کے لیے قیادت سونپی گئی تھی اور پھر ٹیم کے کھلاڑیوں کی جانب سے ’’سوچنا بھی مت‘‘ کے ہیش ٹیگ کے ساتھ بابر اعظم سے اظہار یکجہتی کی گئی تھی۔ اس ٹیم پر ایسا زوال آیا کہ ایک دوسرے سے دوستی کا دم بھرنے والے ٹورنامنٹ میں ایک دوسرے سے بات کرنے کے روادار بھی نہ رہے اور جب ٹیم میں ایک ساتھ تین چار کپتان آجائیں تو انا کا وارد ہوجانا فطری امر ہے۔

ٹیم میں گروپ بندی کا سابق چیئرمین پی سی بی منیجمنٹ کمیٹی ذکا اشرف بھی اپنے دور میں واضح طور پر اظہار اور ٹیم کو گروہ بندی ختم کرنے کا سخت حکم دے چکے تھے۔ نجم سیٹھی نے بھی ورلڈ کپ سے قبل اس بارے لب کشائی کی اور کہا کہ ٹیم میں اس وقت تین گروپ موجود ہیں، اس کے بعد سابق کپتان شاہد آفریدی سمیت کئی دیگر کھلاڑیوں کی جانب سے بھی ٹیم میں گروپ بندی کی باتیں سامنے آتی رہیں اور یہاں تک بات کی گئی کہ ٹیم اس وقت تین ٹکڑوں میں تقسیم ہے جو ایک دوسرے سے بات کرنا بھی پسند نہیں کرتے اور اس کا مظاہرہ میچ کے دوران گراؤنڈ میں بھی اس وقت نظر آیا جب گروپ اسٹیج کے میچ میں کپتان بابر اعظم نے دو بار کاٹ بی ہائینڈ کی اپیل کے لیے وکٹ کیپر رضوان سے پوچھنا چاہا لیکن رضوان نے کوئی جواب دینے کی زحمت نہ کی اور یوں وقت گزر گیا جس پر کمنٹری باکس میں موجود کمنٹیٹر نے یہ تک کہہ دیا کہ یہ کیسی ٹیم ہے جس کے کھلاڑیوں میں ہی رابطے کا فقدان ہے اور یہ ٹورنامنٹ جیتنے آئی ہے؟

ٹیم میں گروپ بندی کا اثر اجتماعی ہی نہیں کھلاڑیوں کی انفرادی کارکردگی پر بھی پڑا اور ابتدائی راؤنڈ کے ٹاپ فائیو بیٹر اور بولرز میں ایک بھی پاکستانی کھلاڑی کا نام موجود نہیں تھا جب کہ کپتان ہونے کے ناطے سب سے زیادہ تنقید کی زد میں بابر اعظم ہی رہے جو چار میچوں میں ایک نصف سنچری تک نہ بنا سکے۔ انہوں نے مجموعی طور پر 119 رنز بنائے اور زیادہ سے زیادہ اسکور امریکا کے خلاف 44 رنز رہا۔ محمد رضوان واحد بلے باز تھے پاکستان کی جانب سے جنہوں نے کینیڈا کے خلاف نصف سنچری بنائی اور چار میچوں میں مجموعی طور پر 110 رنز بنائے۔ بابر اعظم کا اسٹرائیک ریٹ پر بھی سوالیہ نشان اٹھائے جا رہے ہیں کیونکہ انہوں نے گزشتہ کچھ عرصے میں ٹی ٹوئنٹی کے پاور پاور پلے میں 200 سے زائد بالیں کھیلیں مگر ایک چھکا بھی نہ لگا سکے۔ فخر زمان ناکام ترین ثابت ہوئے جو چار میچوں میں 33 رنز ہی بنا سکے۔ افتخار احمد، صائم ایوب، اعظم خان، شاداب خان کوئی بھی امیدوں پر پورا نہ اتر سکا کہ جب بیک وقت چار چار اوپنرز کو ایک ساتھ ٹیم میں کھلایا جائے اور من پسند نمبروں پر کھیلنے کے لیے بلے بازوں کے نمبر اوپر نیچے کیے جائیں تو پھر ایسے بدترین نتائج کے لیے تو تیار رہنا ہی چاہیے۔

ورلڈ کپ کے لیے تجربہ کار عماد وسیم اور محمد عامر کو ٹیم میں شامل کیا گیا لیکن وہ ٹیم کا بوجھ اٹھانے کے بجائے خود بوجھ بنے رہے۔ عماد وسیم جو خود کو بہترین آل راؤنڈر کہتے ہیں ان کا بلا بھی پورے ایونٹ میں خاموش رہا جب کہ بولنگ میں بھی کوئی کمال نہ دکھا سکے۔ محمد عامر نے گوکہ چار میچز میں سات وکٹیں لیں لیکن ٹیم کے کسی کام نہ آسکیں۔ شاہین شاہ 6 اور نسیم شاہ تین میچوں میں پانچ وکٹیں لے سکے۔ حارث رؤف بھی میدان سے زیادہ میدان سے باہر سرگرمیوں کی وجہ سے خبروں میں رہے۔

ورلڈ کپ میں اگر بابر اعظم پر شاداب خان کی سپورٹ کا الزام ہے تو کچھ یہی الزام وہاب ریاض کے حوالے سے چیئرمین پی سی بی پر بھی لگایا جا سکتا ہے۔ جب سے محسن نقوی اقتدار کے دائرے میں داخل ہوئے، تب سے وہاب کی لاٹری کھل گئی حالانکہ ان کے ریکارڈ پر 2015 کے ورلڈ کپ میں شین واٹس کو پریشان کرنے والے اوور اور 2011 کے سیمی فائنل میں 5 وکٹوں کے علاوہ کوئی اور کارکردگی نہیں ہے، لیکن دونوں میچ ہی پاکستان نہیں جیت سکا تھا۔

ورلڈ کپ میں تاریخ کی بدترین ناکامی کے بعد ایک بار پھر ٹیم میں بڑے آپریشن، اکھاڑ پچھاڑ کی باتیں، کپتان کو ہٹانے اور نئے کو لائے جانے کے شوشے چھوڑے جا رہے ہیں۔ بنگلہ دیش کے خلاف آئندہ ماہ دو ٹیسٹ میچوں کی سیریز میں کپتان بابر اعظم، محمد رضوان اور شاہین شاہ کو آرام دینے کی باتیں بھی سامنے آ رہی ہیں۔ یہ سب اپنی جگہ درست کہ ٹیم کی اس وقت جو حالت ہے وہ فوری طور پر توجہ طلب ہے اور ہنگامی بنیادوں پر موثر اور بولڈ فیصلے کرنے کی ضرورت ہے تاہم پی سی بی حکام کو یہ سوچنا ہوگا کہ پاکستان نے آئندہ سال فروری میں چیمپئنز ٹرافی کی میزبانی کرنی ہے جس کے انعقاد میں اب صرف آدھا سال ہی باقی رہ گیا ہے اور پاکستان اس ایونٹ میں میزبان ہونے کے ساتھ دفاعی چیمپئن بھی ہے۔

پاکستان ٹیم پی سی بی کی ناقص پالیسیوں، سیاسی مداخلت اور ہر چند ماہ بعد انتظامی تبدیلیوں اور فیصلوں کے ردوبدل نے قومی ٹیم کو نا قابل تلافی نقصان پہنچا دیا ہے۔ صرف 8 ماہ کے اندر ایشیا کپ، ون ڈے ورلڈ کپ، ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں بدترین ناکامی کے ساتھ نیوزی لینڈ سے اس کی سر زمین پر ٹی ٹوئنٹی سیریز چار ایک سے ہارنے، ہوم سیریز میں نیوزی لینڈ کی سی ٹیم کو بھی زیر نہ کر پانے اور آئرلینڈ جیسی ٹیم گرتے پڑے سیریز جیتنے جیسے نتائج پی سی بی کے کرتا دھرتاؤں کی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہونے چاہییں۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ چیمپئنز ٹرافی میں پاکستان ایک بہتر ٹیم کے روپ میں سامنے آئے تو ذاتی مفاد، پسند نا پسند اور انا سے بالاتر ہوکر قومی ٹیم کے مفاد میں عارضی نہیں مستقل بنیادوں پر فیصلے کریں تاکہ پاکستان ٹیم شکستوں کی دلدل سے نکل سکے۔

Comments

اہم ترین

ریحان خان
ریحان خان
ریحان خان کو کوچہٌ صحافت میں 25 سال ہوچکے ہیں اور ا ن دنوں اے آر وائی نیوز سے وابستہ ہیں۔ملکی سیاست، معاشرتی مسائل اور اسپورٹس پر اظہار خیال کرتے ہیں۔ قارئین اپنی رائے اور تجاویز کے لیے ای میل [email protected] پر بھی رابطہ کر سکتے ہیں۔

مزید خبریں