جنوب مشرقی ایشیا سے تعلق رکھنے والے باجاؤ قبیلے نے پوری دنیا کو حیرت میں متبلا کردیا ان کی خاص بات سمندر کی تہہ میں دیر تک سانس روکے رکھنا ہے۔
باجاؤ قبیلے کے افراد جو "سی نومیڈز” کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں، جنوب مشرقی ایشیا میں رہائش پذیر ہیں اور ان کا سمندر کے ساتھ گہرا تعلق رکھتے ہیں۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق محققین نے نوٹ کیا کہ سی نومیڈز (سمندری خانہ بدوش) نے مکمل طور پر سمندر پر ہی زندگی گزاری ہے اور وہ ایک ہزار سال سے زیادہ عرصے سے جنوب مشرقی ایشیائی سمندروں میں ہاؤس بوٹس پر سفر کر رہے ہیں۔
باجاؤ قبیلے کی زندگی کا بڑا حصہ پانی کے نیچے غوطہ لگانے اور 13 منٹ تک سانس روکے رکھنے پر مبنی ہے جو ان کے جینیاتی ڈھانچے میں خصوصی تبدیلیاں پیدا کرچکا ہے، ان کی غیر معمولی سانس روکنے کی صلاحیت انہیں دیگر انسانوں سے منفرد بناتی ہے۔
فلپائن، ملائیشیا اور انڈونیشیا میں رہنے والے یہ افراد مچھلی کے شکار یا قدرتی اشیا کی تلاش کے لیے پانی میں غوطہ لگاتے ہیں۔
مگر ایسا کیسے ممکن ہوا کہ ایک انسان اتنی دیر تک پانی کے اندر رہ سکے؟ تو اس کا جواب چند سال پہلے 2018 ایک تحقیق میں دیا گیا تھا۔
یہ مطالعہ چھ سال کے بعد دوبارہ منظر عام پر آیا ہے کہ کیا انسان پانی کے نیچے طویل عرصے تک سانس روکے رکھنے کے لئے جینیاتی طور پر مطابقت پیدا کر سکتے ہیں جو کہ چارلس ڈارون کے نظریہ ارتقاء کی تائید کرتی ہے۔ یہ مطالعہ پہلی بار 2018 میں ریسرچ جرنل سیل میں شائع ہوا تھا۔
باجاؤ قبیلے کے افراد اوسطاً 13 منٹ تک پانی کے اندر اپنی سانس روک سکتے ہیں، ان کی یہ صلاحیت ممکنہ طور پر جینیاتی موافقت پر مبنی ہے۔ اس بات پر کافی قیاس آرائی کی جا رہی تھی کہ آیا ان کی یہ صلاحیت جینیاتی بنیاد پر ہے یا نہیں؟
محققین نے پایا کہ ’پی ڈی ای ٹین اے‘ جین جیسے جینیاتی تغیرات تلی کے سائز کو بڑھاتے ہے، جس سے آکسیجن کے ذخیرہ میں اضافہ ہوجاتا ہے۔
شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ باجاؤ لوگوں میں ’بی ڈی کے آر بی ٹو‘ جین میں جینیاتی تغیرات ہیں، جو انسانی ڈائیونگ ریفلیکس کو متاثر کرتے ہیں۔
اس تحقیق سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ باجاؤ قبیلہ پانی کے نیچے طویل عرصے تک سانس روکنے کی صلاحیت جینیاتی طور پر حاصل کر چکا ہے۔
تحقیق کے دوران اس بات کو نوٹ کیا گیا کہ انسانی ہائپوکسیا (آکسیجن کی کمی) کے خلاف مزاحمت کی فزیو لوجی اور جینیات کو سمجھنا اہم طبی نتائج رکھتا ہے۔
باجاؤ لوگ اپنی غیر معمولی صلاحیتوں کی وجہ سے ہی مشہور ہیں وہ شکار کیلئے ایک لمبی سی لکڑی رسی اور چشمے کے ساتھ سمندر کی 70 میٹر سے زیادہ گہرائی میں غوطہ لگا سکتے ہیں اور یہ لوگ روزانہ اپنا 60فیصد کام کا وقت پانی کے نیچے گزارتے ہیں۔