اتوار, نومبر 3, 2024
اشتہار

ٹوائلٹ سیٹ جیسے سَر والی کروڑوں سال پرانی مخلوق دریافت

اشتہار

حیرت انگیز

سائنس دانوں نے ڈائناسار سے چار کروڑ سال قدیم ایک مخلوق کی محفوظ باقیات دریافت کی ہیں جس کا سَر دیکھ کر ماہرینِ رکازیات (paleontologist) بھی حیران رہ گئے۔

ماہرین کے مطابق یہ ایسا فقاریہ (ریڑھ کی ہڈی رکھنے والا) ہے جس کی باقیات میں سب سے نمایاں اس کی دو فٹ لمبی کھوپڑی ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ اس کا سَر ایک ٹوائلٹ سیٹ کی طرح چپٹا ہے۔

سائنسی جریدے نیچر میں اس دریافت سے متعلق مقالہ پر مبنی رپورٹ کے مطابق برفانی دور کی اس مخلوق کا مسکن دلدلی علاقے تھے جہاں یہ زیادہ تر دلدل کی تہ میں رہتا تھا۔ یہ جانور گہری اور انتہائی گدلی جھیلوں میں بھی پائے جاتے تھے۔ ارضیات اور جانداروں کے باہمی تعلق اور ارتقائی عمل پر تحقیق میں‌ مصروف ماہرین نے اس قدیم جاندار کو گایاشیا جینی اے (Gaiasia jennyae) کا نام دیا ہے۔

- Advertisement -

محققین کا کہنا ہے کہ یہ چار ٹانگوں‌ کی مدد سے رینگنے والے خوف ناک جانوروں میں جسامت کے لحاظ سے ایک بڑا حیوان ہے۔ اس کی باقیات کی لمبائی آٹھ فٹ ہے جس میں اس کی کھوپڑی اور آپس میں جڑے ہوئے دانت نمایاں ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ گایاشیا جینی اے اپنے آس پاس کسی جانور کی موجودگی کو محسوس کر کے اپنے مخصوص بناوٹ کے حامل منہ کو پوری طرح کھول دیتا اور انتظار کرتا کہ شکار کب اس کے قریب آئے اور وہ اسے جھپٹ لے۔ ریسرچ میں بتایا گیا ہے کہ گایاشیا جینی اے اپنے دانت کسی شکار کے جسم میں‌ گاڑنے کے بعد اسے نگل جانے کی صلاحیت رکھتا تھا۔

اس مخلوق کی باقیات نمیبیا سے ملی ہیں۔ یہ جنوبی افریقہ کا شمال کی طرف وہ علاقہ ہے جو ہزاروں سال سے اسی محلِ وقوع کے ساتھ کسی اور نام سے پہچانا جاتا ہوگا اور یہ وہ زمانہ تھا جب برفانی دور ختم ہورہا تھا۔ اس کے علاوہ دلدلی زمین تیزی سے خشک ہو رہی تھی اور جنگل بنتی جا رہی تھی۔ اس وقت جانوروں کے مختلف گروہ موجود تھے جو بدلتے ہوئے ماحولیاتی نظام کے ساتھ معدوم ہوگئے اور کچھ مختلف شکلوں میں زندہ رہے۔

ماہرینِ حیاتیات کا خیال ہے کہ جسامت میں ایک آدمی سے بھی بڑا گایاشیا جینی اے (Gaiasia jennyae) بہت طاقت ور اور بھاری بھرکم جانور رہا ہوگا۔ شکاگو کے فیلڈ میوزیم میں این ایس ایف کے پوسٹ ڈاکٹریٹ فیلو اور نیچر اسٹڈی کے شریک سرکردہ مصنف جیسن پارڈو کہتے ہیں کہ "اس کے منہ کے سامنے پورے حصّے میں بڑے دانت ہیں۔ یہ اس کے بڑے شکاری ہونے کو ظاہر کرتا ہے، لیکن ممکنہ طور پر گایاشیا جینی اے نسبتاً سست اور گھات لگانے والا شکاری بھی ہے۔”

بیونس آئرس یونیورسٹی کی کلاڈیا مارسیکانو، اور ان کے ساتھی ماہرین کی اس دریافت پر تحقیق کے بعد قدیم دور کے حیاتیاتی نظام سے متعلق اہم معلومات اور بعض دل چسپ حقائق سامنے آئے ہیں۔ اس جانور کی باقیات کے مختلف نمونوں پر مزید تحقیق کی جارہی ہے۔ کلاڈیا مارسیکانو، جو پارڈو کے تحقیقی کام میں شریک مصنّف بھی ہیں، کہتی ہیں، "ہم نے ایک بہت بڑا نمونہ کسی پتّھر کی طرح پڑا ہوا پایا، جسے غور سے دیکھنے پر ہم ششدر رہ گئے۔ اسے دیکھ کر اندازہ ہوا کہ یہ بالکل مختلف چیز ہے۔ سب بہت پُرجوش نظر آرہے تھے۔” مارسیکانو نے مزید کہا، "کھوپڑی کا ابتدائی معائنہ کرنے کے بعد ہی اس کے اگلے حصّے کی ساخت نے خاص طور پر میری توجہ اپنی جانب کھینچ لی تھی۔ یہ اس مخلوق کا واضح طور پر نظر آنے والا واحد حصّہ تھا، اور یہ ظاہر کرتا تھا کہ غیر معمولی طور پر آپس میں جڑ جانے والے بڑے دانتوں سے قدیم دور میں چوپائے منفرد طریقے سے شکار کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔”

ماہرین پر مشتمل اس ٹیم نے ایسے کئی نمونے تلاش کر لیے تھے، جن میں سے ایک میں اس مخلوق کی کھوپڑی اور ریڑھ کی ہڈی نمایاں تھی اور اس کی بنیاد پر گایاشیا جینی اے کی شکل و جسامت کا اچھی طرح اندازہ لگانا ممکن ہوا۔ پارڈو کا کہنا ہے کہ "یہ بہت اچھی بات تھی کہ اس میں ایک مکمل کھوپڑی بھی شامل تھی، جسے ہم اس عمر کے دوسرے جانوروں سے موازنہ کرنے کے لیے استعمال کرسکتے تھے اور اس بات کا اندازہ لگا سکتے تھے کہ یہ جانور کیا ہے اور کیا چیز اسے منفرد بناتی ہے۔” اس مخلوق پر تحقیق سے معلوم ہوا کہ اس میں بہت کچھ ہے جو اسے خاص بناتا ہے۔ پارڈو کا خیال ہے کہ گایاشیا جینی اے ایک اسٹیم ٹیٹراپوڈ (stem tetrapods) ہے۔ اس سے مراد ابتدائی چار ٹانگوں والے فقاری جانور ہیں۔ لیکن پارڈو کے یہ پہلے والے اسٹیم ٹیٹراپوڈ کے گروپ کی مخلوق ہے۔ پارڈو کے مطابق "کچھ اور قدیم جانوروں کی باقیات اس خطّے میں اب بھی موجود ہیں، جو 300 ملین سال پہلے کے ہیں، لیکن وہ چھوٹے تھے، جب کہ گایاشیا جینی اے بڑی اور بکثرت پائی جانے والی مخلوق ہے اور ایسا لگتا ہے کہ یہ اپنے ماحولیاتی نظام کا سب سے بڑا شکاری تھا۔”

گایاشیا جینی اے اس دور کی صرف ایک جاندار نوع ہے اور اس کی باقیات کا ملنا ماہرینِ حیاتیات کو کئی اہم معلومات اور ماحولیاتی نظام پر تحقیق میں مدد دے گا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس جاندار کے یہ نمونے ہمیں بتاتے ہیں کہ اس وقت جانوروں کے بہت سے گروہ نمودار ہوئے تھے جن میں سے اکثر اس طرح ناپید ہوگئے کہ ہم واقعی نہیں جانتے وہ کہاں ہیں۔

Comments

اہم ترین

مزید خبریں