نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
انھوں نے ایک نوکیلے پتھر کی مدد سے انار توڑ کر اس کے دانے نکالے اور مزے سے کھانے لگے، لیکن فیونا نے اناڑی پن سے اپنے کپڑے سرخ دھبوں سے بھر دیے تھے۔ ان کے پاس پانی کم تھا اور صحرا میں پانی پینے کے لیے زیادہ ضروری ہوتا ہے، اس لیے اسے اسی طرح رہنا تھا۔ جب تک انھیں خبر ہوتی، سورج غروب ہونے لگا تھا، انھوں نے بیگ میں رکھا کھانا ختم کیا اور پھر زمین پر قالین بچھا دیا۔ دانیال نے کہا کاش حکیم ہمیں وہ جادوئی لفظ بتا پاتا تو ابھی قالین پر اڑنے کا مزا لیتے۔ فیونا نے کہا کہ چراغ والا حکیم تو ہمیں جو مشورہ دینا چاہتا تھا وہ بھی آزادی کے جوش میں نہیں دے پایا۔ چلو، اب اس قالین پر سو جاتے ہیں۔ وہ قالین بچھا کر اس پر لیٹ گئے اور اربوں ستاروں سے بھرے آسمان کو دیکھنے لگے۔ جبران نے کہا مجھے لگتا ہے اس کاینات میں ہمارے علاوہ بھی کسی سیارے پر زندہ مخلوق ہوگی۔ فیونا نے فوراً کہا، ہاں اور اس محل میں بھی ہمارے علاوہ دوسری مخلوق موجود ہے۔ وہ دونوں یہ سن کر چونک اٹھے۔ وہ اٹھ کر بیٹھ گئے اور اس طرف دیکھنے لگے جس طرح فیونا دیکھ رہی تھی۔ ’’کیا وہ کیکڑے ہیں؟‘‘ دانیال نے حیرت سے پوچھا۔
’’نہیں، یہ بڑے سائز کی مکڑیاں ہیں، میں نے ایک ٹی وی شو میں دیکھا تھا کہ صحرا کی یہ مکڑیاں لوگوں سے زیادہ تیز دوڑ سکتی ہیں، دیکھو کتنی بد صورت ہیں یہ۔‘‘ جبران نے جواب دیا۔ دانیال نے جلدی سے فیونا سے کہا کہ وہ جادوئی لفظ ادا کرے تاکہ قالین اڑے، لیکن وہ بھول گیا تھا کہ حکیم نے جادوئی لفظ بتایا ہی نہیں تھا۔ پھر اس نے کہا کہ مکڑیوں سے بات کر کے انھیں بھگایا جائے۔ فیونا بولی کہ اسے تو ویسے ہی مکڑیاں بہت بری لگتی ہیں اور تسمانیہ کے بعد اب پھر ان کا سامنا مکڑیوں سے ہو رہا ہے۔ مکڑیاں قریب آئیں تو دانیال چیخا: ’’حکیم ہماری مدد کرو، وہ جادوئی لفظ بتا دو۔‘‘
فیونا نے آگ لگانے اور ریت کی مکڑیوں کو جلانے کے بارے میں سوچا لیکن پھر اس نے اپنا ارادہ بدل دیا۔ صحرا کی رات پہلے ہی کافی گرم تھی، اس لیے اس نے مکڑیوں سے بات کرنے کا فیصلہ کیا لیکن عین اسی لمحے جبران نے آسمان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ’’ارے دیکھو، شوٹنگ اسٹار ۔۔۔۔ اسے شہابِ ثاقب کہتے ہیں نا دانی۔‘‘
دانیال اور فیونا اس کی طرف متوجہ ہو گئے۔ اچانک فیونا نے حیرت سے کہا یہ شوٹنگ اسٹار تو ہماری طرف بڑھا چلا آ رہا ہے۔ باقی دونوں بھی یہ محسوس کر کے اچھل پڑے۔ تینوں اس صورت حال سے حیران بھی اور پریشان بھی تھے۔ شہابِ ثاقب کے ان پر گرنے کا مطلب تھا کہ ان کا خاتمہ۔
شوٹنگ اسٹار تیزی سے ان کی طرف آیا، وہ مکڑیوں کے ڈر سے قالین سے اٹھ کر بھاگ بھی نہیں سکتے تھے۔ اور پھر وہی ہوا، ٹوٹا ستارہ ان کی آنکھوں کے سامنے آ کر قالین پر دھم سے گرا، اور انھیں کچھ بھی نہیں ہوا۔ تینوں ششدر رہ گئے۔ فیونا بولی کہ اس نے پہلے کبھی قالین پر گرتے ستارے کے بارے میں نہیں سنا۔ ستارہ اتنا روشن تھا کہ اس نے پورے محل کو روشن کر دیا، اور انھیں ہر جگہ موجود مکڑیاں اچھے سے نظر آنے لگیں۔ جبران نے ڈرتے ڈرتے ستارے کو پاؤں سے ٹھوکر لگائی اور وہ تھوڑا سا ہلا۔ پھر اس نے ہمت کی اور ہاتھ اس کے قریب لے گیا، لیکن اسے کوئی گرمی محسوس نہیں ہوئی۔ ’’یہ تو عجیب ہے، نہ یہ گرم ہے نہ اس میں آگ ہے۔‘‘ جبران نے فٹ بال کے سائز کے ستارے کو ہاتھ میں اٹھا کر گھما پھرا کر دیکھا۔
اچانک وہ چونک اٹھے۔ انھوں نے دیکھا کہ ستارے کے بالکل درمیان میں حکم کا چہرہ نظر آنے لگا تھا۔ فیونا چلا کر بولی ’’حکیم ہم مصیبت میں ہیں، ہمیں آپ کی مدد کی ضرورت ہے۔‘‘ حکیم اسے دیکھ کر بولا ارے تمھارے کپڑے اتنے گندے کیوں ہیں۔ جبران نے جلدی سے اسے انار کے بارے میں بتایا اور کہا کہ جو باتیں وہ بتانا بھول گیا ہے، جلدی سے بتا دے۔
حکیم نے کہا ہاں سوری، میں بھول گیا تھا۔ تم نے قالین پر بیٹھ کر صرف اتنا کہنا ہے ’’اڑ اڑ جا اڑ‘‘ اور یہ اڑنے لگے گا، اور ہاں ایک مشورہ بھی دینا چاہ رہا تھا، وہ یہ تھا کہ ’’زمین پر مت سونا، یہاں ریت کی مکڑیاں ہیں۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے قہقہہ لگایا اور پھر ستارہ آسمان کی طرف اڑ گیا۔
چاند کی روشنی میں انھیں مکڑی کی پیلی آنکھیں نظر آ رہی تھیں، تینوں جلدی سے قالین پر ٹھیک سے بیٹھے اور فیونا نے کہا اڑ اڑ جا اڑ۔ ادھر قالین فضا میں بلند ہوا اور ادھر مکڑیاں پاگلوں کی طرف ان کی طرف دوڑ پڑیں، کیوں کہ انھوں نے دیکھ لیا تھا کہ شکار ان کے ہاتھ سے نکلنے والا ہے۔ لیکن دیر ہو چکی تھی، قالین اب فضا میں بلند ہو چکا تھا۔ تینوں گھبرا رہے تھے اور انھوں نے قالین کے کنارے مضبوطی سے پکڑ رکھے تھے کہ کہیں نیچے نہ گر جائیں۔