بدھ, اکتوبر 23, 2024
اشتہار

بھارت کا عدالتی نظام بھی ذات پات پر قائم

اشتہار

حیرت انگیز

بھارت کا عدالتی نظام بھی ذات پات پر قائم ہے، بھارت میں کوئی بھی ادارہ مودی کے مذموم سیاسی مقاصد سے بچا ہوا نہیں۔

رپورٹ کے مطابق فوج سے لے کر عدلیہ تک سارے ادارے کرپشن کا گڑھ بن چکے ہیں، بھارت میں نچلی ذات کے لوگوں اور دیگر قبائل کے ساتھ امتیازی سلوک ایک عام سی بات بن گئی۔

رپورٹ کے مطابق بھارت میں نچلی ذات کے ہندوؤں کو اچھوت اور کم تر سمجھا جاتا ہے، مودی سرکار کے نام نہاد قوانین کے باوجود انہیں معاشرے میں برابری کا مقام حاصل نہیں ہے اور انکا استحصال بدستور جاری ہے۔

- Advertisement -

بھارتی نیوز ویب سائٹ کے مطابق 2018 سے بھارتی ہائی کورٹس میں تعینات ہونے والے چار ججوں میں سے تین کا تعلق اونچی ذات کی برادریوں سے ہے۔

اعداد و شمار کے مطابق ہائیکورٹ کے 18 ججوں کا تعلق اونچی ذات سے جبکہ دیگر 9 کا تعلق نچلی ہندو ذات اور مختلف اقلیتوں سے ہے، اسی مدت میں دوسری پسماندہ ذات کی کمیونٹی(او بی سی)کے 72 ججوں (11.92 فیصد) کو ہائی کورٹ کے ججوں کے طور پر ترقی دی گئی اور اقلیتی برادریوں کے ججوں کی تعداد 34 (5.6 فیصد) رہی۔

بھارتی رپورٹ کے مطابق گزشتہ پانچ سالوں کے دوران مقرر کردہ 79 فیصد ججز کا تعلق اونچی زات سے تھا جو بھارت میں اقلیتی برادریوں کی پسماندگی اور غیر مساوی نمائندگی کی زندہ مثال ہے۔

لوک سبھا کے مرکزی وزیر قانون ارجن میگھوال نے کہا کہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے ججوں کی تقرری آئین کے آرٹیکل 124، 217، اور 224 کے تحت کی جاتی ہے، کسی بھی ذات یا طبقے کے افراد کے لیے ریزرویشن فراہم نہیں کرتے ہیں۔

مودی سرکار اعلیٰ عدلیہ میں سماجی تناؤ کو ختم کرنے میں ناکام رہی ہے، اس سے قبل بھی بھارتی نیوز ویب سائٹ اسکرول نے مودی سرکار پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ بھارت کی تمام عدالتوں میں زیرالتوا مقدمات کی تعداد 2010 اور 2020 کے درمیان سال بہ سال 2.8 فیصد اضافہ ہوا جسکے باعث لوگ انصاف کے منتظر ہیں۔

بھارتی میڈیا کے مطابق مودی حکومت کے لیے عدلیہ ہمیشہ سے ایک سیاسی ورثہ رہی ہے اور مودی نے ہمیشہ اس ورثے کا استحصال کیا ہے۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں