بدھ, فروری 26, 2025
اشتہار

فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل: ملزمان سے غیر انسانی سلوک نہ کرنے کا حکم

اشتہار

حیرت انگیز

اسلام آباد : فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کیس میں سپریم کورٹ نے ملزمان سے غیرانسانی سلوک نہ کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا ملاقاتوں میں آئندہ تعطل نہیں ہوناچاہیے۔

تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں کیخلاف فیصلہ پر انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت ہوئی، اٹارنی جنرل روسٹرم پر آئے۔

جسٹس جمال خان مندو خیل نے کہا آپ ملزمان کے ساتھ سلوک تو انسانوں والا کریں، جسٹس عرفان سعادت نے کہا اٹارنی جنرل صاحب انسانوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک نہیں ہوسکتا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا آپ پہلے بتاتے تھے ہر ہفتہ ملزمان کی فیملی سے ملاقات ہوتی ہے، آپ اس کو جاری کیوں نہیں رکھتے؟ اٹارنی جنرل آپ کا بیان عدالتی ریکارڈ کا حصہ ہے۔

لطیف کھوسہ نے بتایا کہ ایک ملزم کو فیملی سے نہیں ملنے دیا گیا، اس کا پانچ سالہ بچہ فوت ہوگیا۔

ملٹری کورٹس میں ملزمان سے ملاقاتوں کے فوکل پرسن برگیڈیر عمران عدالت میں پیش ہوئے، اٹارنی جنرل نے وفاقی حکومت کی جانب سے دلائل دیئے۔

جسٹس امین الدین خان نے کہا زیر حراست افراد کی اہلخانہ سے ملاقات کیوں نہیں کرائی جا رہی؟ اٹارنی جنرل نے عدالت کے روبرو کہا متعلقہ حکام کو بتایا تھا کہ ملاقات کرانے کا حکم عدالت کا ہے، تسلیم کرتا ہوں کہ ملاقاتوں کا سلسلہ نہیں رکنا چاہیے تھا، آج دو بجے زیرحراست افراد کو اہلخانہ سے ملوایا جائے گا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا جن سے تفتیش مکمل ہوچکی وہ جیلوں میں کیوں نہیں بھیجے گئے؟ تفتیش کیلئے متعلقہ اداروں کے پاس ملزم رہے تو سمجھ آتی ہے، تفتیش مکمل ہوچکی تو ملزمان کو جیلوں میں منتقل کریں۔

اٹارنی جنرل نے بتایا کہ جیلوں میں منتقلی میں کچھ قانونی مسائل بھی ہیں، جس پر جسٹس عرفان سعادت خان نے کہا انسانوں کیساتھ غیرانسانی سلوک نہیں ہونا چاہیے، ہم چاہتے ہیں کم از کم آج اس کیس کی میرٹ پر سماعت شروع کریں۔

جسٹس محمد علی مظہرنے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہااپیل میں عدالت نے اصل فیصلہ میں غلطی کو دیکھنا ہوتا ہے، اٹارنی جنرل آپ کو ہمیں اصل فیصلہ میں غلطی دکھانا ہوگی۔

جسٹس شاہد وحید نے کہاہم اپیل میں آپ کو سن رہے ہیں، ساتھی جج نے آپ کو جواب دیا ہے، جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ میں نے کوئی جواب نہیں دیا، ایک قانونی نکتے کی بات کی ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا اٹارنی جنرل صاحب آپ دلائل دیں ہم جو ہوا فیصلے میں دیکھ لیں گے، جس پر اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا عدالتی حکم پر آج ملاقاتیں ہو رہی ہیں۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا یہ ملاقاتیں رکی کیوں اٹارنی جنرل نے کہا صرف لاہور میں ملاقاتوں کا ایشو بنا ایسا دوبارہ نہیں ہوگا، ملاقات کیلئے ہر مرتبہ حکم دینا مناسب نہیں ہوگا۔

جسٹس جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے تحقیقات مکمل ہو چکی تو ملزمان جیل میں کیوں ہیں ملزمان اگر جیل میں ہوتے تو ملاقاتوں کو مسئلہ پیدا نہ ہوتا تو اٹارنی جنرل نے کہا آرمی رولز میں ملزمان کے جوڈیشل ریمانڈ کا ذکر نہیں۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا سزا کے بعد جو ہولیکن رویہ انسانوں والا ہونا چاہیے جبکہ جسٹس عرفان سعادت نے کہا بھی انسانوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک نہیں ہونا چاہیے۔

جسٹس محمد علی مظہر کا استفسار کیا ہفتے میں کتنی مرتبہ ملاقاتیں ہوتیں ہیں؟ اٹارنی جنرل نے بتایا ہر ہفتہ میں ایک ملاقات کروائی جا رہی ہے تو جسٹس محمد علی مظہر نے کہا ہرمرتبہ 25-20 منٹ کیس انہی باتوں پر چلتا ہے، مرکزی کیس چل ہی نہیں رہا ملاقاتوں میں آئیندہ تعطل نہیں ہونا چاہیے۔

دوران سماعت وکیل لطیف کھوسہ نے بات کرنے کی کوشش کی تو سپریم کورٹ نے لطیف کھوسہ کو بات کرنے سے روک دیا۔

جسٹس عرفان سعادت نے کہا کھوسہ پلیز کیس چلنے دیں، ہم ججز کی خواہش ہے کہ آج کیس کو چلائیں، لطیف کھوسہ صاحب پلیز مناسب نہیں اج مقدمہ چلنے دیں، جس پر وکیل لطیف کھوسہ نے کہا میاں عباد کا پانچ سالہ بیٹا فوت ہوا ملنے نہیں دیا گیا۔

بریگیڈیئر عمران نے کہا میں فوکل پرسن ہوں تمام ملزمان کے وارثان کو نمبر بھی دیا گیا ہے، عدالت نے ہدایت کی کہ جس ملزم کا بچہ فوت ہوا اس کی ترجیحی بنیاد پر ملاقات کروائی جائے۔

جسٹس شاہد وحید اور جسٹس محمد علی مظہر کے درمیان پھر جملوں کا تبادلہ ہوا، جسٹس شاہد وحید نے کہا جسٹس محمد علی مظہر نے کہا آپ ہمیں غلطی دکھائے بغیر ہم سے نیا اور الگ فیصلہ چاہتے ہیں، اپیل میں اگر کیس آیا ہے، تو کھر سب کچھ کھل گیا ہے، یہ نکتہ نظر میرے ساتھی کا ہوسکتا ہے میرا نہیں، اگر اپیل میں سب کچھ ہوسکتا ہے تو کیا ہم کیس ریمانڈ بیک بھی کرسکتے ہیں؟

جسٹس عرفان سعادت کا کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل آپ ایک جواب دے سکتے ہیں کہ یہ نظر ثانی نہیں اپیل ہے۔

جسٹس جمال خان مندو نے کہا اٹارنی جنرل آپ یہی کہہ رہے ہیں نا کہ اپیل کا اسکوپ وسیع ہے، بس آگے چلیں، جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ وفاقی یہاں عدالت کے سامنے ایک قانون کا دفاع کرنے کھڑا ہے، عدالت کو اس بات کو سراہنا چاہیے، جس قانون کو کالعدم کیا گیا وہ ایسا تنگ نظر قانون نہیں تھا جیسا کیا گیا۔

اٹارنی جنرل نے آرمی ایکٹ کی کالعدم شقوں سے متعلق دلائل دیئے، جسٹس شاہد وحید نے سوال کیا کیا اپیل کا حق ہر ایک کو دیا جا سکتا ہے؟ ہر کسی کو اپیل کا حق دیا گیا تو یہ کیس کبھی ختم نہیں ہوگا۔

جسٹس جمال خان مندو خیل نے کہا کل کو عوام میں سے لوگ اٹھ کر آجائیں گے کہ ہمیں بھی سنیں، ایک قانون سارے عوام سے متعلق ہوتا ہے۔

جسٹس شاہد وحید نے ریمارکس دیئے متاثرہ فریق ہونا ضروری ہے، اپیل دائر کرنے کے لیے جسٹس محمد علی مظہر نے کہااس حد تک جسٹس شاہد وحید سے متفق ہوں، متاثرہ فریق ہونا لازم ہے۔

جسٹس شاہد وحید نے سوال کیا کیا اس کیس میں اپیل دائر کرنے کے لیے وفاقی کابینہ سے منظوری ضروری نہیں؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ کابینہ منظوری لازم نہیں ہے۔

اٹارنی جنرل نے وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کے دلائل سننے کی استدعا کی، وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث روسٹرم پر آگئے۔

جسٹس امین الدین نے کہا خواجہ صاحب ایک دو چیزیں پہلے نوٹ کر لیں، بظاہر یہ کیس عدالت میں 9 مئ واقعات پر آیا، اس کیس میں کیا قانونی شقیں چیلنج ہوسکتی تھی۔

فیصل صدیقی ایڈوکیٹ وڈیو لنک پر پیش ہوئے، فیصل صدیقی نے کہا.میں نے متفرق درخواست دائر کر رکھی ہے کہ پرائیویٹ وکیل حکومت کی جانب سے نہیں آسکتا، خواجہ حارث کے دلائل سے پہلے میری درخواست نمٹائیں ورنہ غیر موئثر ہوجائے گی۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا پہلی بار تو نہیں ہوا کہ پرائیویٹ وکیل حکومت کی جانب سے آیا ہو، فیصل صدیقی نے کہا عدالت کی بار اس پریکٹس کی حوصلہ شکنی کر چکی ہے، نجی وکیل کی اجازت نہ دینے کا فیصلہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے بطور جج دیا تھا، فیصلے کے مطابق اٹارنی جنرل کے پاس متعلقہ کیس پر مہارت نہ ہو تو ہی نجی وکیل کیا جا سکتا ہے۔

وکیل کا کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل کو لکھ کر دینا ہوتا ہے کہ ان کے پاس متعلقہ مہارت نہیں ہے، موجودہ کیس آئینی نکات کا جس پر اٹارنی جنرل خود پیش ہو رہے ہیں، اٹارنی جنرل کے ہوتے ہوئے کوئی دوسرا وکیل پیش نہیں ہو سکتا، جس پر جسٹس شاہد وحید نے کہا اٹارنی جنرل کو اختیار ہے جس وکیل سے چاہے معاونت لے سکتا ہے، عدالت نے خواجہ حارث کو وزارت دفاع کی جانب سے دلائل دینے کی اجازت دے دی۔

سپریم کورٹ نے ملزمان سے غیرانسانی سلوک نہ کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا ملاقاتوں میں آئندہ تعطل نہیں ہوناچاہیے۔

بعد ازاں سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں کے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی۔

اہم ترین

راجہ محسن اعجاز
راجہ محسن اعجاز
راجہ محسن اعجاز اسلام آباد سے خارجہ اور سفارتی امور کی کوریج کرنے والے اے آر وائی نیوز کے خصوصی نمائندے ہیں

مزید خبریں