اسلام آباد : مخصوص نشستوں کے کیس میں جسٹس یحییٰ آفریدی ، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس جمال خان مندوخیل کے اختلافی نوٹ سامنے آگئے۔
تفصیلات کے مطابق مخصوص نشستوں کے کیس مین سپریم کورٹ کا اکثریتی فیصلہ جسٹس منصور علی شاہ کا تحریر کردہ ہے ، جسٹس منصور علی شاہ نے ہی اکثریتی فیصلہ پڑھ کر سنایا۔
جسٹس منیب اختر،جسٹس اطہر من اللہ ،جسٹس محمد علی مظہر ، جسٹس عائشہ ،جسٹس شاہد وحید ،جسٹس حسن اظہررضوی ، جسٹس عرفان سعادت اکثریتی فیصلے سے اتفاق کرنیوالےججز میں شامل ہیں۔
جسٹس امین الدین اور جسٹس نعیم اختر افغان نے الیکشن کمیشن ،پشاور ہائیکورٹ کافیصلہ برقرار رکھا لیکن جسٹس امین الدین خان ،جسٹس نعیم اختر افغان نے سنی اتحاد کونسل کی اپیلیں خارج کردیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے علیحدہ فیصلہ دیا جبکہ جسٹس یحییٰ آفریدی سنی اتحاد کونسل کی اپیلیں مستردکردیں۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے اختلافی نوٹ میں کہا کہ الیکشن کمیشن ریکارڈ کے مطابق کچھ ممبران تحریک انصاف سے وابستہ رہے، وابستہ رہنے والوں کےتناسب سےتحریک انصاف کو مخصوص نشستیں دی جانی چاہئیں۔
چیف جسٹس اور جسٹس جمال مندوخیل نے اختلافی نوٹ میں کہا کہ آئین میں نئے الفاظ شامل کرنا ترمیم کےمترادف ہیں ، سپریم کورٹ آئین میں مصنوعی الفاظ کااضافہ نہیں کر سکتی۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آئینی تشریح کے ذریعے نئے الفاظ کا اضافہ کرناآئین دوبارہ تحریر کرنےکے مترادف ہے۔
دونوں ججز کی جانب سے اختلافی نوٹ میں کہا گیا کہ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کیس فیصلے کی غلط تشریح کی، چیف جسٹس ، سنی اتحاد کونسل نے عام انتخابات میں حصہ نہیں لیا، سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کی حق دار نہیں۔
اختلافی نوٹ کے مطابق الیکشن کمیشن کےپاس سیاسی جماعت کےامیدواران کو آزاد ڈکلیئر کرنے کا اختیار نہیں، الیکشن کمیشن فیصلے کیخلاف سپریم کورٹ ،ہائیکورٹ سے رجوع نہیں کیا گیا۔