نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
جلد ہی وہ سمجھ گئے کہ کچھ لوگ گھوڑوں اور اونٹوں پر سوار تیزی سے ان کی طرف دوڑتے چلے آ رہے ہیں، جبران نے کہا کہ شاید یہ ایک شیخ اور اس کے آدمی ہیں، ان کے ہاتھوں میں بڑی بڑی خمیدہ تلواریں ہیں، اور شاید یہ انھیں مارنے آ رہے ہیں۔ جیسے جیسے وہ قریب آ رہے تھے، مردوں کے منھ سے نکلتا شور بڑھتا چلا گیا، وہ پاگلوں کی طرح چلا رہے تھے۔ ان پر خوف طاری ہو گیا تھا لیکن جب وہ چند گز کے فاصلے پر پہنچے تو ایک دم سے غائب ہو گئے۔ انھوں نے اطمینان کی سانس لی، کہ ان کے آگے جادوئی دیوار کھڑی تھی جسے کوئی پار نہیں کر سکتا تھا۔
ان کے سامنے موجود دیوار نے پھر سے اپنا روپ بدل لیا۔ اس بار انھوں نے ایک نخلستان دیکھا، جہاں کھجور کے درخت ہوا سے جھوم رہے تھے۔ یہ درخت کھجور کے خوشوں سے بھرے ہوئے تھے اور ان سے ایک ایک کر کے کھجور ٹوٹ کر نیچے گھاس پر گر رہے تھے، جس کی وجہ سے وہاں ایک چادر سی بچھ گئی تھی۔ انھوں نے ایک چشمہ دیکھا جس سے پانی کے چھینٹے اڑ رہے تھے۔ اور وہاں ایک بڑا سا خیمہ تھا سیاہ اور کھلا، اس میں گاؤ تکیے بچھے ہوئے تھے اور رنگ برنگی ریشم کی چادریں ادھر ادھر لہرا رہی تھیں۔ اور وہیں خیمے کے بیچوں بیچ سنگ مرر کے ستون پر قیمتی پتھر یاقوت موجود تھا۔
دانیال چلایا: ’’ وہ رہا یاقوت۔‘‘ لیکن اس پل وہ جوش میں بالکل بھول گیا کہ سامنے محض ایک جادوئی دیوار ہے، اس لیے وہ تیزی سے خیمے کی طرف بڑھا اور دیوار سے ٹکرا گیا، صرف یہی نہیں، دیوار نے اسے بری طرح اچھال دیا، جس کی وجہ سے وہ اڑ کر فیونا اور جبران کے قدموں میں آ کر گرا۔ اس کے منھ سے چیخ اور کراہیں نکلنے لگیں۔ فیونا اور جبران پہلے تو پریشان ہوئے پھر مسکرانے لگے۔
وہ دیوار سے دور ہوئے تو وہ پھر پتھر کے ایک سادہ دیوار میں تبدیل ہو گئی۔ جبران نے کہا اس سراب جیسی دیوار کا کیا حل نکالیں، آخر یاقوت کو کیسے حاصل کریں گے؟ فیونا کچھ سوچ کر دیوار کے پاس چلی گئی۔ اسے لگا کہ دیوار پر ڈیزائن بنایا گیا ہے، اور وہ اس پر انگلیاں پھیرنے لگی۔ جبران نے کہا کہ شاید کسی قسم کا جیومیٹرک ڈیزائن یا شکل ہے، ہو سکتا ہے کوئی کوڈ ہو۔ انھوں نے دیکھا کہ ڈیزائن پر پھول اور پرندے اور دیگر چیزوں کی شکلیں بنی ہوئی تھیں۔ ایک اور دیوار پر انھوں نے کنول کا پھول دیکھا۔ فیونا بولی کہ محل میں دیکھنا ہوگا اب کہ کتنی علامتیں مل سکتی ہیں، اگر کسی کو کوئی علامت نظر آئے تو وہ چیخ کر بتائے۔ کچھ دیر بعد دانیال کو مصری پرندے لق لق کی شکل دکھائی دی تو وہ چلایا، فیونا نے اسے کہا کہ وہ وہیں رہے، پھر جبران کی آواز آئی کہ اس نے ایک پھول دیکھ لیا، فیونا نے اسے بھی رکنے کو کہا۔ پھر فیونا نے بتایا کہ اسے ایک ’انخ‘ ملا ہے۔ یہ ايک قدیم مصری صَليب ہے جس کے اوپر کی جانب چَھلّا ہوتا ہے اور اسے نسل اور طويل عمری کی علامت سمجھا جاتا ہے۔
فیونا نے دانیال سے کہا کہ وہ اس کی طرف دس قدم سیدھی لائن میں چلتا آئے۔ اس نے جبران کو بھی یہی ہدایت کی اور خود بھی اسی طرح دس قدم چل کر سیدھ میں گئی۔ تینوں ایک مخصوص مقام پر اکھٹے ہو گئے۔ فیونا نے کہا کہ یہی محل کا مرکز ہے۔ ’’اب ہمیں جلدی کرنی ہوگی کیوں کہ سورج طلوع ہو رہا ہے، دیکھو سورج کی کرنوں سے آسمان سرخ ہو گیا ہے۔
عین اسی وقت ان کے درمیان جگہ میں سے ایک چھوٹے سے دائرے میں زمین سے روشنی کی ایک کرن اٹھی۔ اس روشنی میں ہر رنگ کی تتلیاں اور کنول کی پنکھڑیاں تیرتی دکھائی دے رہی تھیں۔ دفعتاً اس روشنی سے ایک تتلی اڑی اور محل کے ایک کمرے کی طرف چلی گئی۔ فیونا نے باقی دونوں کو اپنی جگہ پر موجود رہنے کی ہدایت کی اور خود تتلی کا پیچھا کیا، جو اسے سنگ مرمر کے ستون کی طرف لے گئی۔ جیسا کہ انھوں نے جادوئی دیوار میں دیکھا تھا، وہاں ستون پر یاقوت رکھا تھا۔ فیونا آہستگی سے چلتی ہوئی اس کی طرف بڑھی اور اسے اٹھا لیا۔ اس کے بعد ایک دم سے ستون غائب ہو گیا اور تتلی واپس روشنی کی طرف اڑ گئی اور فیونا اس کے پیچھے چل کر واپس آ گئی۔ وہاں موجود روشنی بھی غائب ہو گئی اور کے ساتھ ہی ان پر پانی کے چھینٹے پڑے اور تتلیاں بادلوں کی طرف اڑ گئیں۔ یہ ایک خوب صورت منظر تھا، جس میں وہ چند لمحوں کے لیے کھو گئے تھے۔ لیکن روشنی غائب ہونے کے بعد وہاں سے سبز دھواں نمودار ہو گیا، یہ چراغ والا جن تھا۔ اسے دیکھ کر تینوں چونک اٹھے۔
ابھی فیونا اسے مخاطب کرنے ہی والی تھی کہ حکیم سے رہا نہ گیا اور اس نے انکشاف کر دیا: ’’تو آپ نے یاقوت کو حاصل کر لیا۔ پتا ہے میں نے ہمیشہ کے لیے اس کی حفاظت کی قسم کھائی تھی، لیکن جب تم نے اتنی مہربانی سے مجھے چراغ کی جیل سے آزاد کیا، تو میرے پاس یاقوت کو ڈھونڈنے میں آپ کی مدد کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔‘‘ لیکن حکیم نے اس بار بالکل مختلف بات بتائی۔ اس کا کہنا تھا کہ اس قیمتی پتھر کی تلاش میں آنے والے کسی اچھے آدمی کی مدد کے لیے بھی اسے ہدایت کی گئی تھی۔ دانیال نے الجھن سے کہا ’’اور اگر برے لوگ اسے ڈھونڈنے آتے تو؟‘‘ چراغ کے جن نے ہنس کر کہا کہ اسے اچھے اور برے آدمی میں فرق کرنا آتا ہے۔
دانیال نے کہا کہ اسے تو اس صحرا میں پایا تھا، ریت میں ایک پتھر کے نیچے۔ یہ وہاں کیا کر رہا تھا۔ حکیم نے بتایا کہ اس نے خود اسے وہاں منتقل کیا تھا تاکہ وہ اسے ڈھونڈ سکے۔ حکیم نے انکشاف کیا کہ اس نے ان تینوں کو دیکھتے ہی محسوس کر لیا تھا کہ ان کا یاقوت سے کوئی خاص تعلق ہے۔