جمعہ, اکتوبر 18, 2024
اشتہار

بجلی کے ہوشربا بل : اربوں بٹورنے والے آئی پی پیز کون سے ہیں؟

اشتہار

حیرت انگیز

پاکستان میں مہنگے ترین پاور پلانٹس عوام کا خون کیسے نچوڑ رہے ہیں اس کا اندازہ ہمیں بجلی کے بلوں کو دیکھ کر ہوجاتا ہے، لوگ گھروں کے کرائے سے زیادہ بجلی کے بل ادا کررہے ہیں۔

پاور پلانٹس سے کیے گیے بدترین معاہدوں کے نتیجے میں آئی پی پیز (انڈیپیندنٹ پاور پروڈیوسرز) کو جو ادائیگیاں (کپیسٹی پیمنٹ) کی جارہی ہیں اس کا سارا بوجھ غریب عوام کے کاندھوں پر ہے۔

اس سلسلے میں اے آر وائی نیوزکے پروگرام دی رپورٹرز میں میزبان خاور گھمن نے ایک تفصیلی رپورٹ پیش کی

- Advertisement -

کپیسٹی پیمنٹ کیا ہے؟

کپیسٹی پیمنٹ سے مراد وہ ادائیگی ہے جو ہر ماہ صارف کی جانب سے بجلی بنانے والی کمپنی کو اس کی بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت کو برقرار رکھنے کے لیے کی جاتی ہے جو صارفین کی جانب سے بجلی کی اضافی مانگ کی صورت پر مہیا کی جا سکے۔

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ آئی پی پیز کو مذکورہ کپیسٹی پیمنٹ پاکستانی روپے میں نہیں بلکہ امریکی ڈالر کی صورت میں ادا کی جارہی ہے۔

اس حوالے سے سابق وزیر تجارت گوہر اعجاز اپنے بیانات اور ایکس پیغامات کے ذریعے عوام کو آگاہی فراہم کررہے ہیں کہ کہاں کہاں حکومت وقت کیا غلطی کررہی ہے اور اگر اس غلطی کو درست نہ کیا گیا تو ملکی معاشی حالات بد سے بد ترین ہوتے چلے جائیں گے۔

ڈاکٹر گوہر اعجاز نے اپنے ایکس پیغام میں ملک میں موجود پانچ مہنگے ترین پاور پلانٹس کا ذکر اور ان کی کارکردگی کی تفصیل بیان کی ہے۔

مہنگے ترین پاور پلانٹس کون سے ہیں؟

پہلا پاور پلانٹ روش کے نام سے ہے جو 1999 میں قائم کیا گیا، اس کی مدت 30سال ہے یہ پاور پلانٹ 745 روپے فی یونٹ کے حساب سے بجلی فراہم کررہا ہے۔

دوسرا پاور پلانٹ چائنا پاور حب ہے جو 350روپے فی یونٹ کے حساب سے بجلی پیدا کررہا ہے، اس کے بعد پورٹ قاسم الیکٹرک ہے جو 177 روپے فی یونٹ بجلی دے رہا ہے۔

چوتھا پاور پلانٹ صبا پاور کے نام سے ہے یہ بھی سال 1999 میں 30 سال کیلئے قائم کیا گیا، اور یہ 117 روپے فی یونٹ بجلی پیدا کررہا ہے۔

اس کے بعد پاک جین کے نام سے قائم کیا گیا بجلی گھر ہے جو 95 روپے کے ریٹ سے بجلی پیدا کررہا ہے، ان مذکورہ پاور پلانٹس کی تفصیل کے ساتھ جو انکشاف ڈاکٹر گوہر اعجاز نے کیا وہ ہماری آنکھیں کھول دینے کیلئے کافی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ سب سے مہنگا پاور پلانٹ روش کو روان سال 2024 میں ماہ جنوری سے مارچ تک بغیر کسی پیداوار کے ایک ارب 28کروڑ روپے ادا کیے گئے۔

اسی طرح چائنا پاور حب نامی اس بجلی گھر کو بغیر بجلی پیدا کیے اسی تین ماہ کی مدت میں 33 ارب روپے کی ادائیگی کی گئی، اور پورٹ قاسم الیکٹرک کو بھی بغیر کسی پیداوار کے تقریباً 30 ارب روپے ادا کیے گئے۔

اس کے علاوہ رواں سال جنوری سے مارچ تک پنجاب تھرمل پاور کو بھی صفر پیداوار کے باوجود تقریباً 10 ارب روپے ادا کیے گئے۔ اسی طرح جامشورو پاور (جینکو ون) کو بھی اسی مدت میں بغیر بجلی پیدا کیے تقریباً 93 کروڑ روپے ادا کیے گئے۔

سیف پاور پروجیکٹ کو بھی ان ہی تین ماہ کے دوران بغیر کسی پیداوار کے 67کروڑ روپے کی ادائیگی کی گئی۔ سیفائر الیکٹرک لمیٹڈ کو جنوری سے مارچ تک 59 کروڑ روپے ادا کیے گئے۔

اس حوالے سے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئےتجز یہ کار حسن ایوب نے کہا کہ جن لوگوں نے بھی ایسے معاہدے کرکے یہ جرم کیا ہے ان کو کڑی سے کڑی سزا ملنی چاہیے۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں