واشنگٹن : امریکی عدالت نے سرچ انجن ’گوگل‘ کے خلاف دائر ایک مقدمے میں اسے غیر قانونی اجارہ داری کا مرتکب قرار دے دیا۔
امریکی فیڈرل جج کی جانب سے کیے گئے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ گوگل نے عدم اعتماد کے قانون کی خلاف ورزی کی، ادارے نے ایک غیر قانونی اجارہ داری قائم کرنے اور دنیا کا ڈیفالٹ سرچ انجن بننے کیلئے اربوں ڈالر خرچ کیے۔
یہ عدالتی فیصلہ بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں کے مارکیٹ پر غلبے کے خلاف وفاقی حکام کی پہلی بڑی کامیابی ہے، اس فیصلے نے ممکنہ اصلاحات کا تعین کرنے کیلئے دوسرے مقدمے کی راہ ہموار کی ہے جس میں ممکنہ طور پر گوگل پیرنٹ الفابیٹ کا ٹوٹنا بھی شامل ہے جو آن لائن اشتہاری دنیا کے منظر نامے کو تبدیل کردے گا جس پر گوگل برسوں سے غلبہ رکھتا ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق امریکی ڈسٹرکٹ جج امیت مہتا نے 277 صفحات پر مشتمل فیصلے میں لکھا کہ عدالت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ گوگل ایک اجارہ دار ادارہ ہے اور اس نے اپنی اجارہ داری برقرار رکھنے کے لیے غیرقانونی طریقے اپنائے۔
اپنے فیصلے میں عدالت کا کہنا ہے کہ ’گوگل‘ آن لائن سرچ مارکیٹ کا تقریباً 90فیصد شیئر اور اسمارٹ فونز پر 95فیصد کنٹرول کرتا ہے۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ گوگل کو اپنے غیر مسابقتی رویے کو روکنا ہوگا، گوگل کی جانب سے ایپل اور دیگر موبائل کمپنیوں سے کیے جانے والے خصوصی معاہدے مسابقتی قوانین کی خلاف ورزی ہیں۔
فیصلے میں امریکی جج نے مزید کہا کہ گوگل کی جانب سے آن لائن اشتہارات کے لیے زیادہ فیس لی جاتی ہے جس سے اس کی آن لائن سرچ میں اجارہ داری کی طاقت ظاہر ہوتی ہے۔
اس حوالے سے امریکی اٹارنی جنرل میرک گارلینڈ نے اس فیصلے کو امریکی عوام کے لئے ایک تاریخی فتح قرار دیتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی کمپنی چاہے وہ کتنی ہی بڑی یا با اثر کیوں نہ ہو – قانون سے بالاتر نہیں ہے۔
وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری کارین جین پیئر کا کہنا تھا کہ یہ عدالتی فیصلہ امریکی عوام کے لئے ایک فتح ہے، امریکی عوام ایک ایسا انٹرنیٹ چاہتے ہیں جو آزاد، منصفانہ اور مقابلے کے لئے آزاد ہو۔