ملک بھر میں انٹرنیٹ سروس سست روی کا شکار ہے یہ سلسلہ تقریباً ایک ماہ سے جاری ہے جس کے سبب صارفین شدید مشکلات میں مبتلا جبکہ فری لانسرز، سافٹ ویئر ہاؤسز اور دیگر آئی ٹی سیکٹرز بھی بھاری مالی نقصان برداشت کر رہے ہیں۔
اس حوالے سے لاہور کے لبرٹی چوک پر اے آر وائی نیوز کے پروگرام سرعام میں آئی ٹی کے شعبے سے وابستہ مختلف افراد نے گفتگو کرکے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
پروگرام کے میزبان اقرار الحسن سے گفتگو کرتے ہوئے آئی ٹی ماہرین نے انٹرنیٹ کی بندش کے باعث پیش آنے والی مشکلات و مسائل کا ذکر کیا اور اس کے سدباب کیلئے اپنی تجاویز سے آگاہ کیا۔
اس موقع پر ایک کانٹنٹ کریئٹر کا کہنا تھا کہ انٹرنیٹ سیکیورٹی نیٹ ورک سسٹم ’فائر وال‘ کی تنصیب اور تجربات کی وجہ سے حکومت کی جانب سے انٹرنیٹ کی رفتار سست کی گئی۔
انہوں نے کہا کہ آئی ٹی ایک ایسا سیکٹر ہے جو ملکی معیشت کو بہتر بنا سکتا ہے لیکن بد قسمتی سے فیصلہ سازوں نے انٹرنیٹ کی سہولت ہی چھین لی ہے اور کسی کو نہیں معلوم کہ یہ مسئلہ کب اور کیسے حل ہوگا۔
ایک طالبہ کا کہنا تھا کہ اگر میں کسی سیاسی خاندان سے تعلق رکھتی تو میرے لیے کوئی مشکل یا مسئلہ نہیں ہوتا، میرے اندر چاہے جتنی بھی صلاحیتیں ہوں مجھے ان مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے مقامی تاجر نے بتایا کہ دنیا اس وقت فائیو جی پر کام کررہی ہے اور ہم سے تھری جی اور فور جی پر اٹکے ہوئے ہیں اور وہ بھی ٹھیک سے نہین چلا پارہے۔
اس مسئلے کا حل صرف ایک ہے
ایک سافٹ ویئر ہاؤس سے وابستہ فینٹیک ایکسپرٹ یوسف جمشید کا کہنا تھا کہ جو لوگ نچلی سطح پر کام کررہے ہیں وہ انٹرنیٹ کی سست رفتاری سے بہت بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔
وی پی این کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ یہ تو بہت پہلے بھی چل رہا ہے بہت سے ممالک ہم سے براہ راست رابطے میں نہیں جس کی وجہ سے وی پی این کا استعمال ضروری ہے اور وہ ہوتا آیا ہے۔ بہت ساری ایپلی کیشنز بغیر وی پی این کے نہیں چلتیں۔
یوسف جمشید نے کہا کہ حکومت نے ایک غیر تربیت یافتہ شخصیت سے اس کی وضاحت بیان کرواتی ہے جس کی لوگوں نے تردید کرتے ہوئے اس کا مدلل جواب دیا۔ انٹرنیٹ کی سست رفتاری کا نقصان یہ ہورہا ہے کہ لوگ اپنا کام دبئی شفٹ کررہے ہیں اس کے علاوہ آئی ٹی کے حوالے سے افرادی قوت پاکستان کے بجائے بھارت سے لی جارہی ہے۔
مسئلے کا حل بیان کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو چاہیے کہ دیگر ممالک کی طرح ایک پالیسی فریم مرتب کرے کہ سب کو اس دائرے میں رہتے ہوئے کام کرنا ہے یا سوشل میڈیا استعمال کرنا ہے لیکن نیٹ بند کرنا مسئلے کا حل نہیں بلکہ مزید الجھن کا سبب بنے گا۔
پاکستان کو ایتھوپیا بنانے کی کوشش کی جارہی ہے
سی ای او ایمبلم ٹیکنالوجی سلمان ارشد نے موجودہ حکمرانوں پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو ایتھوپیا بنانے کی پوری کوشش کی جارہی ہے، نااہل حکمران، لاعلم لوگ اور لاغرض پالیسی ساز پتہ نہیں اس ملک کے ساتھ کیا کرچکے ہیں اور مزید کیا کرنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کو یومیہ کروڑوں ڈالرز کا نقصان ہورہا ہے، ملک کی دیگر صنعتیں تو بحران کا شکار ہیں ہی اب آئی ٹی سیکٹر کو بھی تباہی کی جانب لے جایا جارہا ہے۔
ایک اور آئی ٹی ماہر نے بتایا کہ میں وی پی این سے متعلق حکومتی مؤقف سے بالکل بھی متفق نہیں ہوں، انٹرنیٹ کی سست رفتاری سے دو بڑے نقصانات ہورہے ہیں پہلا یہ کہ دنیا بھر کی بڑی کمپنیاں ہمارے ٹاپ فری لانسرز کو اپنی جانب راغب کرنے کیلیے بڑے پیکجز دے رہی ہیں اور لوگ یہاں سے باہر جارہے ہیں۔
اور دوسرا بڑا نقصان یہ کہ حکومت نے فری لانسرز سے یہ سہولت ہی چھین لی ہے اور اس کا الزام مختلف طریقوں سے دوسروں پر ڈالا جارہا ہے، جب ہر بچہ باہر جانے کی کوشش کرے گا تو آئی ٹی سیکٹر کیسے ترقی کرے گا؟