پیر, دسمبر 30, 2024
اشتہار

کالج میں ادیب فاضل کی ایک کلاس

اشتہار

حیرت انگیز

اردو ادب میں صوفی غلام مصطفی تبسم ادیب اور شاعر کی حیثیت سے خاص پہچان رکھتے ہیں۔ وہ اردو، پنجابی اور فارسی کے شاعر تھے اور اصنافِ نظم و نثر میں اپنی تخلیقات کی بدولت ممتاز ہوئے۔ صوفی صاحب ہمہ جہت شخصیت تھے اور تدریس کے ساتھ ان کے ادبی مشاغل میں ڈرامہ نگاری، بچّوں کے لیے نظمیں لکھنا، تراجم کرنا بھی شامل رہا۔

صوفی غلام مصطفیٰ تبسم کو تعلیمی ادارے میں اردو کے ایک بڑے مزاح نگار اور پروفیسر، احمد شاہ المعروف پطرس بخاری کا ساتھ بھی نصیب ہوا۔ ان شخصیات نے تخلیقی کاموں اور ادبی سرگرمیوں کے ساتھ تعلیم و تربیت کے حوالے سے بھی اپنے فرائض اور ذمہ داریاں خلوصِ‌ نیّت سے انجام دیں۔ یہ پارہ اسی کی ایک جھلک دکھاتا ہے جو صوفی صاحب کے ایک مضمون سے لیا گیا ہے۔ ملاحظہ کیجیے:

۱۹۴۸ء کی بات ہے، شام کا وقت تھا۔ پروفیسر بخاری اور میں بیٹھے کالج کی باتیں کررہے تھے۔ میں نے کالج کی تدریسی اور ادبی سرگرمیوں کے سلسلے میں کچھ تجویزیں پیش کیں۔

- Advertisement -

ہنس کر بولے،’’صوفی! یہ تو شعر ہوئے۔ تم نے سنائے اور میں نے سن کر داد دی۔‘‘ میں چپ ہوگیا۔

کچھ وقفے کے بعد بولے، ’’سنو!‘‘ تم استاد ہو، اور میں کالج کا پرنسپل۔ ہمارا کام اس درس گاہ کے نظم و نسق کو عملی طور پر آگے بڑھانا ہے۔ میرے نزدیک وہ تجاوز جو عملی صورت میں نہیں آتی، خواہ وہ آسمان ہی سے کیوں نہ نازل ہوئی ہو، محض ذہنی عیاشی ہے اور میں ذہنی عیاشیوں میں شعروں اور دوستانہ خوش گپیوں کو ہمیشہ ترجیح دیتا ہوں۔‘‘ میں نے مرزا بیدل کی ایک غزل جو اسی روز پڑھی تھی سنائی شروع کر دی۔

رات کچھ بے چینی سی رہی۔ ایک مدر سے کالج میں اردو کی تدریس شبانہ جاری کرنے کا ارادہ تھا۔ صبح ہوتے ہی میں نے ’’ادیب فاضل کلاس‘‘ کی تدریس کا ایک مکمل ’’پیش نامہ‘‘ مرتب کرلیا، اور اس کی تین نقلیں بھی تیار کردیں۔ شام کو یہ مسل بغل میں دبائے بخاری صاحب کے مکان پر پہنچا۔

یانہوں نے پوچھا، ’’ضلع کچہری سے آئے ہو؟‘‘

میں نے کہا، ’’گھر سے آرہا ہوں۔‘‘

’’تو یہ پلندہ کیسا ہے؟‘‘

’’میرے ذاتی کاغذات ہیں۔‘‘

’’ٹھیک، بیٹھو‘‘

ان دنوں پرنسپل کے مکان میں سرکاری کاغذات کا داخلہ ممنوع تھا۔ ایک آدھ ادھر ادھر کی بات کرنے کے بعد میں جھجکتے جھجکتے اپنا تجویز کلام سنانا شروع کیا۔

میں نے کہا ’’عام شائقین کے لئے اردو کی اعلیٰ تدریس کا کوئی خاطر خواہ انتظام نہیں۔ ارادہ ہے کالج میں ادیب فاضل کی ایک کلاس شام کو جاری کی جائے۔ اس کلاس کے جملہ نظم و نسق، ترتیب و تدوین اور درس کا کفیل کالج ہی ہو۔‘‘

حسب معمول کہنے لگے، ’’یہ طرحیہ اشعار ہیں؟‘‘

میں نے کہ، ’’جی ہاں۔ مطلع سنا چکا ہوں، پوری غزل یہ رہی۔‘‘

یہ کہہ کر میں نے کاغذات کا پلندہ ان کے ہاتھ میں دے دیا۔ وہ اسے پڑھتے جاتے اور ان کا چہرہ خوشی اور مسرت سے تمتماجاتا تھا۔ درمیان میں کہیں کہیں وہ کچھ سوال بھی پوچھتے جاتے۔ میں جواب دیتا اور کہتا، ’’آپ سارا مسودہ پڑھ لیں آپ کو معلوم ہوجائے گا۔‘‘

کاغذات ختم ہوئے تو بولے، ’’ہوں… گویا میں بھی پڑھاؤں گا۔‘‘

میں نے کہا، ’’آپ فقط پرنسپل ہی نہیں، استاد بھی ہیں۔‘‘

’’کیوں نہیں۔‘‘

اسں کے بعد انہوں نے ایک سگرٹ سلگایا، جس کا دھواں تھوڑے ہی وقفے میں برآمدے کے ہر گوشے میں لہرارہا تھا۔

شام کا کھانا کھانے کے بعد وہ موٹر کار میں بیٹھ کر شہر میں گھومنے لگے۔ جہاں جاتے اسی غزل کی تلاوت ہوتی اور پڑھنے کے ساتھ ہی اس طرح داد بھی دیتے کہ دوسروں کے منہ سے بے ساختہ واہ نکل جاتی۔ اہلِ فکر حضرات اور مشفق احباب سب نے اسے سراہا۔ اس تبلیغی اعلان اور نشری پرچار میں آدھی رات گزر گئی۔

صبح کو یہ بات لاہور کی گلی گلی کوچے میں گشت لگارہی تھی۔ ایک ہفتہ کے اندر تمام ضروری مراحل طے ہوگئے۔ محکمانہ اجازت، اشتہار و اعلان اور درخواستوں کی طلبی، امیدواروں کی پیشی، داخلہ اور پڑھائی۔

پروفیسر بخاری اپنے روزمرّہ مشاغل میں خواہ وہ فرائضِ منصبی سے تعلق رکھتے ہوں یا نجی ہوں ایسے ہی مستعدی سے کام لیتے تھے۔ زندگی میں ان کی کام یابی کا سب سے بڑا راز یہی ہے۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں