برطانیہ میں جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم پلانٹنگ پیس نے تھائی لینڈ میں 41 سال سے زنجیروں میں جکڑے ہاتھی کو آزاد کروا دیا۔
تھائی لینڈ ایک دلکش سیاحتی مقام ہے جہاں لوگ قدرتی نظاروں، خوبصورت ساحلوں اور مختلف ثقافتوں کا مشاہدہ کرکے لطف اندوز ہوتے ہیں لیکن یہ بدقسمتی سے یہ ملک ہاتھیوں کی غلامی کے لیے بھی جانا جاتا ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق ایشیائی ہاتھیوں کی کل تعداد 50,000 سے کم ہے اور افسوس کی بات یہ ہے کہ آج بھی 3 سے 4ہزار ہاتھی یہاں زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔
پلانٹنگ پیس ایک غیر منافع بخش تنظیم ہے جسے 2004 میں امریکی شہری ایرون جیکسن اور ہیٹی کے جان لوئیس ڈائیوبون نے اس مقصد کے تحت قائم کیا تھا کہ دنیا میں امن قائم کیا جائے۔
سال 2017میں پلانٹنگ پیس نے ایشیائی ہاتھیوں کو غلامی سے آزاد کرانے کا کام باقاعدہ شروع کیا تھا۔ ان کا مقصد ہر ماہ ایک ہاتھی کو بچانا ہے اور اس مقصد کو وہ آج تک جاری رکھے ہوئے ہیں۔
پلانٹنگ پیس ایک غیر منافع بخش تنظیم ہے جسے 2004 میں امریکی ایرون جیکسن اور ہیٹی کے جان لوئیس ڈائیوبون نے اس مقصد کے تحت قائم کیا تھا کہ دنیا میں امن پھیلایا جائے۔
اس تنظیم نے جس پہلے ہاتھی کو غلامی سے آزاد کرایا، اس کا نام "مے” تھا۔ مے 35 سال کی تھی اور اپنی زندگی 30سال لکڑی کے صنعت میں غلامی کرتے ہوئے گزار چکی تھی۔
اس کے علاوہ پلانٹنگ پیس کی سب سے زیادہ وائرل ہونے والی ایک ویڈیو "مارے نوئی” نامی مادہ ہاتھی کے بارے میں ہے جس نے اپنی زندگی کے آخری 41 سال زنجیروں میں گزارے تھے، اس ویڈیو میں اسے آزادی کا پہلا قدم اٹھاتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق "مارے نوئی” نامی مادہ ہاتھی نے اس دوران اپنے 3 بچے کھو دیے تھے، پلانٹنگ پیس نے اس مقصد کیلئے 24 گھنٹوں میں 37 ہزار ڈالر جمع کیے تاکہ اسے آزاد کرایا جا سکے۔
ایرون جیکسن کا کہنا ہے کہ "مارے نوئی” آزادی کے بعد ہاتھیوں کی مخصوص پناہ گاہ ’بون لاٹ‘ میں جائے گی، وہاں اس کے پاس 500 ایکڑ زمین ہوگی جہاں وہ بغیر زنجیروں کے آزادانہ گھوم پھر سکتی ہے۔
سوشل میڈیا پر صارفین نے ایرون جیکسن اور ان کے ادارے پلانٹنگ پیس کے کام کی دل کھول کر تعریف کرتے ہوئے اسے قابل تقلید قرار دیا۔