اگلے وقتوں سے روایت یہ چلی آرہی تھی۔ عید کی نماز بستی سے باہر نکل کر کھلے میدان میں آسمان تلے پڑھی جائے۔ اس کا ثواب زیادہ ہوتا ہے۔ تو اس برصغیر میں جہاں جہاں مسلمان آباد چلے آتے تھے اور چلے آتے ہیں بستی سے باہر عید گاہ تعمیر کی جاتی تھی۔
یہ کوئی لمبی چوڑی عمارت نہیں ہوتی تھی۔ بس ایک لمبی دیوار جس میں پیش امام کے لیے محراب بنی ہوتی تھی۔ دیوار کے دونوں کناروں پر دو بلند مینار، بیچ میں ایک گنبد۔
مگر عید کی صبح یہی سادہ سی دو میناروں والی دیوار نمازیوں کا مرجع بن جاتی تھی۔ عہدِ مغلیہ میں دلّی تک کا نقشہ یہ تھا کہ جمعتہ الوداع کی نماز بہت دھوم سے شاہ جہانی مسجد میں ہوتی تھی۔ آس پاس کی بستیوں سے بھی نمازی کھنچ کر وہاں پہنچتے تھے۔ مگر عید کی صبح اور تو اور بادشاہ سلامت بھی اپنے جدّ کی تعمیر کی ہوئی بڑی مسجد سے کنی کاٹ کر عید گاہ کی طرف نکل جاتے تھے۔ پھر توپ بھی وہیں دغتی تھی۔
ہاں عید گاہ کے نمازیوں میں سب سے پُرجوش نمازی کم سن صاحب زادگان ہوتے تھے۔ جو نئے بھڑکیلے کپڑے پہن کر ’سلمہ ستارے‘ کے کام سے لیس مخملی ٹوپی سر پر سجا کر اور بڑوں کی انگلی پکڑ کر عیدگاہ جاتے۔ نماز بڑے خضوع و خشوع سے پڑھتے۔ پھر نماز سے فارغ ہو کر باہر سجے ہوئے عید بازار یا عید میلہ میں گھس جاتے اور رنگ رنگ کے کھلونے خرید کر خوش خوش گھر واپس آتے۔ پھر گلی گلی ان کے لائے ہوئے غبارے اڑتے نظر آتے اور بانس کی تیلیوں سے بنی ہوئی پھٹ پھٹ گاڑیوں کے شور سے گلیاں گونجتی نظر آتیں۔
ارے ہاں گھروں کے اندر جو کچھ ہوتا وہ بھی تو سن لیجیے۔ لو منہارن کو تو ہم بھولے ہی جا رہے تھے۔ ہم کیا اسے تو زمانے نے فراموش کر دیا۔ ورنہ 29 رمضان کے دن سے لے کر چاند رات تک اسی کا دور دورہ ہوتا تھا۔ رنگ رنگ کی چوڑیوں کی گٹھری کمر پر لادے گھر گھر کا پھیرا لگاتی۔ لڑکیاں بالیاں کنتی خوش ہو کر اس کا استقبال کرتیں اور اپنی گوری گوری کلائیاں اس کے سامنے پھیلا دیتیں۔ کتنی چوڑیاں کلائیوں پر چڑھتے چڑھتے چکنا چور ہو جاتیں۔ بہرحال کلائیوں پر چڑھی چوڑیاں جلد ہی کھن کھن کرنے لگتیں۔
اور ہاں ہتھیلیوں، پوروں اور انگلیوں پر گھلی منہدی کا لیپ، عید کی صبح کو یہ منہدی اپنی بہار دکھائے گی۔ یہ سارا کاروبار گزرے زمانے میں گھروں کے اندر ہوتا تھا۔ اب بازاروں میں ہوتا ہے۔ اور ہاں سویّوں کا کاروبار بھی تو بھلے دنوں میں گھروں کے اندر ہی ہوتا تھا۔ شروع شروع میں تو لکڑی کی بنی گھوڑیاں ہوتی تھیں۔ ان کے پیندے میں ایک چھلنی پیوست ہوتی تھی۔ بچے بڑے اس پر سوار ہوتے تھے تب وہ پچکتی تھی اور پیندی والی چھلنی سے سویاں نکلنی شروع ہوتی تھیں۔ ان لمبی لمبی سوئیوں کو دھوپ میں رکھے جھاڑ جھنکاڑ پر پھیلا دیا جاتا تھا۔ سکھا کر انہیں بارود میں پھونا جاتا تھا۔ پھر ابلتے دودھ میں انھیں بار بار ابالا دے کر شیر تیار کیا جاتا تھا۔ گھوڑی گئی تو ہتھے والی مشین آگئی۔ مگر اب ہم بازار سے سویاں خریدتے ہیں۔
اور ہاں عید کا چاند۔ ارے یارو، نئے لوگوں کے تعقل سے مرعوب ہو کر تم ہلالِ عید کی دید سے کیوں بیزار ہو گئے ہو۔ یہ عید کا فیض ہے کہ چاند ہمارے لیے آج بھی زندہ جیتی جاگتی مخلوق ہے۔ ورنہ مغربی تہذیب نے تو اسے سائنس کا کفن پہنا کر مردہ بنا دیا ہے۔ ویسے جب سے رویت ہلال کا فریضہ رویت ہلال کمیٹی کے سپرد ہوا ہے۔ تب سے ہم بھی چاند کی دید سے محروم ہو گئے ہیں۔ ورنہ 29 کی شام کو بچے بڑے چھتوں پر چڑھ کر آسمان پر اسے کس شوق سے ڈھونڈتے تھے۔ ہلال کی ایک جھلک کس طرح ہمارے دلوں میں خوشی کی لہر پیدا کرتی تھی، سلام عید سے پہلے چاند رات کا سلام اپنی بہار دکھاتا تھا۔
(انتظار حسین کے کالم ’عید گاہ گم منہارن غائب‘ سے ماخوذ)