پی پی چیئرمین بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ حکومت کا اگر آج یہ کام ہے کہ پی ٹی آئی کے لوگوں کو کیسے بند کرنا ہے تو کل آپ بھی اپوزیشن میں ہو سکتے ہیں۔
اے آر وائی نیوز کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے قومی اسمبلی اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کا کام اگر صرف یہ ہے کہ آج بانی پی ٹی آئی کے لوگوں کو کیسے بند کرنا ہے، تو یاد رکھیں کہ کل آپ بھی اپوزیشن میں ہو سکتے ہیں۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ ہم اس ملک کے منتخب نمائندے اور پارلیمان سپریم ادارہ ہے۔ آئین کی وجہ سے یہ ادارہ اور پورا ملک چلتا ہے۔ جب آئینی طریقہ کار کے مطابق کوئی عہدہ مل جاتا ہے تو اس کی ذمے داری بھی ہوتی ہے۔ حکومت کا کام صرف آگ پر تیل ڈالنا ہے تو بھی کام نہیں چلے گا جب کہ اپوزیشن اگر صرف گالی اور ہر وقت منفی کردار ادا کرے گی تب بھی کام نہیں چلے گا۔ افہام وتفہیم سے چلتے ہیں تو پھرمیثاق جمہوریت جیسے اقدامات ہوتے ہیں۔
پی پی چیئرمین نے کہا کہ باہر جو سیاست کرنی ہے وہ، آپ کی مرضی، لیکن پارلیمان میں ایک ذمہ داری بنتی ہے۔ پارلیمان میں ہمیں عوام نے بھیجا ہے اور ہم نے یہاں عوام کا ہی مقدمہ لڑنا ہے۔ اس سے فرق نہیں پڑتا کہ میرے والد یا کوئی ممبر جیل میں ہے۔ آپ کے قائد اگر جیل میں ہیں تو ان کا مقدمہ لڑتے رہیں، لیکن ایوان میں عوامی مسائل پر بات کریں کیونکہ اپوزیشن مثبت کردار ادا کیے بغیر اپنا کردار ادا نہیں کر سکتی۔
بلاول بھٹو نے اسپیکر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ پہلے اس ہاؤس کو فنکشنل کریں پھر اس کے بعد ملک کو فنکشنل کرتے ہیں کیونکہ جب تک یہ ایوان نہیں چلے گا، تب تک ملک نہیں چلے گا۔ قانون اور ایوان کا ماحول بنانا ہمارا کام ہے۔ آپ ایسی کمیٹی بنائیں جس میں تمام جماعتوں کے ممبران ہوں۔ اس کمیٹی میں ان کو بھی شامل کیا جائے جو شاید حکومت وقت کو پسند نہ ہوں لیکن جمہوریت چلانے اور پالیمان کی بالادستی کے لیے وہ کام کیے جائیں جس سے ملک کو فائدہ ہو۔
پی پی چیئرمین نے کہا کہ بدقسمتی سے کچھ عرصہ سے جس طرح سیاست ہو رہی ہے اس نے سیاست کو گالی بنا دیا ہے۔ سیاسی ماحول اس نہج پر پہنچ گیا ہے کہ کوئی کسی سے ہاتھ ملانے کو تیار نہیں ہوتا لیکن ہم نے اسی سیاست کو درست سمت دیتے ہوئے معیشت کو بہتر کرنا اور عوام کو غربت سے نکالنا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ صدر آصف زرداری کو 11 سال بغیر کسی کیس کے جیل میں رکھا گیا۔ ہم نے سب درگزر کیا اور سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر میثاق جمہوریت لائے۔ اپوزیشن بلاوجہ تنقید کر کے آئی ایم ایف جیسے اداروں کے ساتھ مذاکرات کو نقصان نہ پہنچائے۔ اپوزیشن کو اعتراف کرنا چاہیے کہ مہنگائی کی شرح کم ہو رہی ہے اور اسے مزید کم کرنے کے لیے مثبت تجاویز دینی چاہئیں۔
بلاول بھٹو نے یہ بھی کہا کہ بانی پی ٹی آئی جب اقتدار میں تھے تو ان سے میرا ذاتی اختلاف نہیں بلکہ عوام کے لیے تھا۔ پہلے بھی پی ٹی آئی کو مشورہ دیا تھا کہ اسمبلی نہ چھوڑیں لیکن انہوں نے صوبائی اسمبلیاں توڑ دیں اور اس غلط قدم کا نتیجہ آج تک بھگت رہے ہیں۔ اختر مینگل کا بہت احترام ہے، وہ بلوچستان کے سینئر سیاستدان ہیں لیکن ان کے مستعفی ہونے کے فیصلے سے بہت ہی مایوس ہوا۔ اپوزیشن سے بھی کہوں گا کہ اختلافات ضرور رکھیں لیکن اسمبلی نہ چھوڑیں۔
اسپیکر قومی اسمبلی نے چارٹر آف پارلیمنٹ کرنے کی تجویز دے دی