بہت پرانی بات ہے کہ ایک پہلوان جو بڑا شہ زور مشہور تھا، لیکن مفلسی کا شکار تھا۔ اسے اپنے اس وصف کی بنا پر اپنے وطن میں باعزّت روزگار نہیں مل سکا تو ایک روز اس نے اپنے باپ سے پردیس جانے کی اجازت مانگی۔ باپ نے اسے سمجھایا کہ صرف طاقتور ہونا ایسی بات نہیں ہے جس کے باعث تو پردیس میں کام یابی حاصل کرسکے۔ صرف پانچ افراد ایسے ہیں جنھیں سفر راس آتا ہے۔ ایک امیر سوداگر، دوسرا مغنّی، تیسرا عالم، چوتھا خوب رو شخص اور پانچواں وہ آدمی جو کوئی ہنر جانتا ہو۔
پہلوان نے باپ کی نصیحت کو بے دلی سے سنا اور ضد کی کہ وہ اسے پردیس جانے سے نہ روکے۔ باپ نے اسے کچھ نہ کہا اور ایک روز پہلوان دوسرے ملک کو روانہ ہو گیا۔ چلتے چلتے یہ پہلوان ایک بڑے دریا کے کنارے پہنچا۔ دوسری طرف جانے والے مسافر کرایہ ادا کر کے کشتی میں سوار ہو رہے تھے۔ مفلس پہلوان یہ سکت نہیں رکھتا تھا سو اس نے خوشامد کا سہارا لیا اور کشتی میں سوار ہونا چاہا لیکن ملاح راضی نہ ہوئے۔ اسے کنارے پر چھوڑ کر لنگر اٹھا دیا۔ کشتی زیادہ دور نہ گئی تھی کہ پہلوان نے ملاحوں سے کہا، اگر تم مجھے دریا کے پار پہنچا دو تو میں تمھیں اپنی یہ پوشاک دے دوں گا۔ ملاح نجانے کیوں لالچ میں آ گئے اور کشتی کو کنارے پر لے آئے۔ جیسے ہی کشتی کنارے پر لگی پہلوان نے سرعت سے ایک ملّاح کا گربیان پکڑا اور پیٹنا شروع کر دیا۔ اس کا ساتھی چھڑانے آیا تو اس کی بھی خوب مرمت کی اور انھیں مجبور کیا کہ وہ اسے کشتی میں سوار کر لیں۔ ملّاحوں نے پہلوان کو کشتی میں بٹھا تو لیا لیکن اس سے بدلہ لینے کی خواہش ان کو تنگ کرنے لگی۔ وہ موقع کی تلاش میں تھے۔ ہوا یہ کہ کشتی قدیم زمانے کی ایک شکستہ عمارت کے قریب سے گزری تو ملاحوں نے چپو روک لیے اور مسافروں سے کہا کہ کشتی میں کچھ خرابی پیدا ہو گئی ہے۔ اگر کوئی شہ زور شخص عمارت کے منارے پر چڑھ کر کشتی کا لنگر تھامے رکھے تو ہم مرمت کر لیں۔
یہ جان کر پہلوان کو خیال ہوا کہ اپنی شہ زوری دکھانے کا یہ نادر موقع ہے۔ اس طرح وہ ان لوگوں کی توجہ حاصل کرلے گا اور وہ اسے اہمیت دیں گے۔ اس نے لنگر کا رسہ ہاتھ پر لپیٹ لیا اور منارے پر چڑھ گیا۔ یہ ملاحوں کی چال تھی۔ چند لمحے ہی گزرے تھے کہ انھوں نے کچھ اس طرح جھٹکا مارا کہ پہلوان کے ہاتھوں سے رسہ نکل گیا۔ ملاح کشتی کو تیزی سے آگے لے گئے۔ دو دن اور دو راتیں بے چارہ پہلوان اسی منارے پر بھوکا پیاسا بیٹھا رہا۔ پھر کچھ نقاہت اور کچھ نیند کے غلبے سے دریا میں گر پڑا لیکن ابھی زندگی باقی تھی، دریا کی لہروں نے اچھال کر کنارے پر پھینک دیا اور یوں اس کی جان بچ گئی۔
اتفاق سے سوداگروں کا ایک قافلہ ادھر سے گزرا اور اس نے خاص اس جگہ قیام کیا جہاں پہلوان موت اور زندگی کی کشمکش میں مبتلا تھا۔ یہ جگہ ایسی ویران، سنسان تھی کہ قافلے والے ڈاکا پڑنے کے اندیشے میں مبتلا ہو گئے۔ پہلوان نے ان سے کہا کہ اگر تم لوگ مجھے اپنے ساتھ لے لو تو میں تمہاری حفاظت کروں گا۔ قافلے والوں کو یہ شخص اس کام کیلئے موزوں نظر آیا۔ چنانچہ انھوں نے اسے ساتھ لے لیا۔ پہلوان نے خیال کیا کہ قدرت مہربان ہوئی اور اس کی بے روز گاری کا مسئلہ حل ہو گیا، لیکن قافلہ جب اگلے پڑاؤ پر رکا تو ایک بوڑھے سوداگر نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ بھائیو! مجھے تو یہ شخص ڈاکوؤں کا کوئی ساتھی لگتا ہے جو اس کی مدد سے کسی بھی جگہ ہم کو لوٹ سکتے ہیں۔ قافلے والوں نے اپنے بزرگ کی بات کو اہمیت دی اور اپنا سامان سمیٹ کر روانہ ہو گئے۔ پہلوان کو انھوں نے وہیں چھوڑ دیا۔ وہ پریشانی کے عالم میں بھی نیند کی وادی میں پہنچ گیا اور دوسرے دن بیدار ہوا تو پھر پہلی سی پریشانی کا شکار تھا۔ بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ مصیبت میں گھر گیا تھا۔ اسے اب یہ بھی معلوم نہ تھا کہ اپنے وطن سے کتنی دور اور کس علاقے کے دشت غربت میں ہے۔ لیکن زندگی باقی ہو تو غیب سے سامان پیدا ہو جاتا ہے۔ اس بار پہلوان کی جان اس طرح بچی کہ ایک شہزادہ شکار کھیلتا ہوا اس طرف آ نکلا اور اس کی پریشانیوں سے آگاہ ہو کر انعام و اکرام سے اس کی دلجوئی کی اور اپنے لشکر کا ایک آدمی اس کے ساتھ بھیج دیا کہ اسے اس کے وطن پہنچا دے یوں وہ اپنے وطن پہنچ گیا۔
باپ سے ملاقات ہوئی تو اس نے اپنی نصیحت یاد دلائی لیکن چونکہ شہزادے کی مہربانی سے پہلوان کے پلے میں تھوڑی بہت پونجی تھی، اس لیے اس نے ڈینگ ماری کہ میں ناکام نہیں کام یاب لوٹا ہوں۔
باپ نے کہا بیٹے! اوّل تو یہ تیری کامیابی نہیں۔ اس کے لیے تو تجھے پردیس جانا تھا۔ مگر تو راستے میں اپنی بے وقعتی کا منہ دیکھ کر اور تکلیف جھیل کر لوٹ آیا ہے۔ یہ محض حسن اتفاق ہے کہ تجھے ایک شہزادہ مل گیا ورنہ دیکھ کہ تجھے پہلے ملاح اور بعد میں سوداگروں نے ناکارہ اور بے وقعت سمجھ کر کیسے چھوڑ دیا تھا۔
(قدیم حکایات اور کہانیاں)