ہفتہ, دسمبر 21, 2024
اشتہار

ہماری فلمیں!

اشتہار

حیرت انگیز

فلم ہر دور میں ایک ایسا میڈیم رہا ہے جس نے ہر طبقۂ عوام کو یکساں‌ متاثر کیا ہے۔ خاص طور پر رومانوی فلمیں ایک زمانہ میں بہت دیکھی جاتی تھیں۔ ہندوستان اور پاکستان میں کئی دہائیوں پہلے جو فلمیں بنا کرتی تھیں ان میں محبّت کے راستے میں ایک ولن کو رکاوٹ اور ظالم سماج کو حائل ضرور دکھایا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ بھی کئی رنگین اور اکثر سنگین موڑ فلموں‌ میں آتے تھے، جو فلم کی کام یابی کی ضمانت تو ہوتے تھے، لیکن ان کے کردار عام زندگی سے اتنے مختلف ہوتے تھے یا کہانی میں واقعات کو اس قدر غیر فطری انداز میں پیش کیا جاتا تھا کہ فلم بین بعد میں ان پر ہنستے ہی تھے۔

اردو زبان کے بڑے بڑے ادیبوں، خاص طور پر مزاح نگاروں نے ایسی ہی فلمی کہانیوں‌ پر مزاحیہ تحریریں سپردِ قلم کی ہیں‌۔ یہاں ہم اردو زبان کے مقبول ترین طنز و مزاح نگار شفیق الرحمان کے ایک ایسے ہی مزاحیہ مضمون سے چند پارے پیش کررہے ہیں جو آپ کو مسکرانے پر مجبور کردیں‌ گے۔ ملاحظہ کجیے:

ہماری فلموں سے مراد وہ فلمیں ہیں جو ملکی ہیں۔ جن میں ہماری روزانہ زندگی کے نقشے کھینچے جاتے ہیں، جن میں ہماری برائیاں اور کمزوریاں بے نقاب کی جاتی ہیں۔

- Advertisement -

ڈاکٹر، وکیل، تھانیدار، یہ سب ہماری فلموں کی جان ہیں۔ جس فلم میں ایک آپریشن، ایک عدالت کا سین اور ایک گرفتاری عمل میں نہیں لائی جاتی اسے بہت کم لوگ پسند کرتے ہیں۔ لیکن فلموں کا ڈاکٹر آل راؤنڈ ہوتا ہے۔ یعنی ہاتھ میں نشتر، گلے میں ربڑ کی نلکی، سر پر ہیڈ مرر اور دیوار پر بینائی ٹسٹ کرنے کے حروف۔ پتہ نہیں یہ سب چیزیں ایک ہی شخص ایک ہی کمرے میں کیونکر استعمال کر سکتا ہے اور ڈاکٹر کا محبوب فقرہ یہ ہے، ’’حالت نازک ہے، دماغی صدمہ پہنچا ہے۔ اگر ایسا ہی صدمہ دوبارہ پہنچایا جا سکے تو یہ بالکل ٹھیک ہوجائیں گے یا ہو جائیں گی۔‘‘ اس کے بعد ڈاکٹر دماغ کا آپریشن کرنے سے بھی نہیں چوکتا۔ ایسا آپریشن جو بڑے بڑے تجربہ کار سرجن نہیں کرسکتے۔

ایک خطرے سے ہم آگاہ کیے دیتے ہیں کہ اگر فلم میں کوئی ایسا سین آجائے جہاں فضا میں سکون ہو۔ ایکٹر بولتے بولتے دفعتاً خاموش ہوجائیں۔ کوئی خوش خبری سنا دے یا بہت بری خبر لے آئے۔ دو پرندے (ہمارے پرانے دوست) بیٹھے ہیں۔ سورج نکل رہا ہو یا ڈوب رہا ہو اور ہوا چل رہی ہو، تو سمجھ لیجیے کہ ضرور کوئی نہ کوئی گائے گا۔ کسی نہ کسی ایکٹر کو بیٹھے بٹھائے دورہ اٹھے گا اور دیکھتے دیکھتے وہ آپے سے باہر ہو جائے گا۔ اس وقت دنیا کی کوئی طاقت اسے گانے سے باز نہیں رکھ سکتی۔ اور کچھ نہیں تو فوراً وہی ہمارا دیرینہ رفیق ایک سادھو گاتا ہوا سامنے سے گزر جائے گا۔

اور یہ لاٹری کی علت بھی سچ مچ سمجھ میں نہیں آئی۔ فلم میں جہاں کہیں ہیرو لاٹری کا ٹکٹ لے لے، بس فوراً سمجھ لیجیے کہ یہ تین چار لاکھ یوں وصول کر لے گا۔ یہ یک طرفہ کارروائی ہمیں بالکل پسند نہیں۔ یا تو یوں ہو کہ فلم کے تمام ایکٹروں کو لاٹری کے ٹکٹ خریدتے دکھایا جائے۔ پھر کسی ایک کے نام انعام نکل آئے تو کوئی بات بھی ہوئی۔ لیکن جو سب سے غریب ہوتا ہے، اسے کوئی مجبور کر کے ایک ٹکٹ دلوا دیتا ہے۔ یک لخت وہ امیر ہو جاتا ہے اور بیوی بچوں کو چھوڑ چھاڑ کر بمبئی یا لاہور بھاگ جاتا ہے۔ وہاں سارا روپیہ خرچ کر کے پاگل یا کانا ہوکر واپس آجاتا ہے۔ آتے ہی اس کی بیوی فوراً اسے معاف کر دیتی ہے۔ ایک ڈاکٹر آپریشن کر کے اس کا دماغ یا آنکھیں درست کر دیتا ہے اور جہاں سے یہ قصہ شروع ہوا تھا وہیں ختم ہو جاتا ہے۔

اور زمینداروں کے متعلق لگاتار فلمیں دیکھ دیکھ کر ہمیں یقین ہوگیا تھا کہ زمیندار ایک نہایت رومانوی ہستی ہے جس کا کام صبح سے شام تک شعر و شاعری اور محبت کرنا ہے۔ کپاس کے کھیتوں میں عشق کی گھاتیں ہوتی ہیں۔ چرواہے بیلوں اور بھینسوں کے پاس بیٹھ کر محبوب کی یاد میں بانسری بجاتے ہیں۔ ہر ہل چلانے والا ایک زبردست گویا ہوتا ہے جو چوبیس گھنٹے گاتا ہی رہتا ہے۔ ہر زمیندار کے لڑکے کا فرض ہے کہ وہ ضرور کسی سے محبت کرے اور زمیندار کا فرض ہے کہ وہ پہلے تو رسماً خفگی ظاہر کرے، پھر شادی پر رضامند ہو جائے۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں