اسرائیل نے پیجرز میں دھماکا خیز ڈیوائس کب اور کیسے نصب کی؟ اس سلسلے میں بین الاقوامی تجزیہ کاروں نے اہم انکشافات کیے ہیں۔
برسلز سے تعلق رکھنے والے ایک عسکری اور سیاسی تجزیہ کار ایلیاہ میگنیئر نے الجزیرہ کو بتایا کہ کس طرح حزب اللہ کے ارکان پر حملے میں استعمال ہونے والے پیجرز کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی۔
میگنیئر نے بتایا ’’ایک قسم کا دھماکا خیز مواد ہے جسے PETN کہا جاتا ہے، اسے پیجر الیکٹرانک سرکٹ کے اندر نصب کر دیا گیا تھا، اور یہ کوئی آسان کام نہیں تھا، بلکہ اس میں ایک اعلیٰ درجے کی تیکنیکی مہارت درکار تھی، اور اس سے پتا چلتا ہے کہ اس میں ریاستی سطح کی انٹیلیجنس ایجنسی ملوث تھی۔‘‘
انھوں نے کہا ’’پیجرز کی جو کھیپ منگوائی گئی تھی، وہ براہ راست لبنان نہیں آئی، کیوں کہ لبنان کے لیے اس قسم کے آلات حاصل کرنا منع ہے، یہ کھیپ قریب ہی ایک بندرگاہ پر 3 مہینوں تک رکی رہی، حزب اللہ کی تحقیقات کے مطابق اس دوران اسرائیلیوں کے لیے دھماکا خیز مواد نصب کرنے کے لیے کافی وقت تھا۔‘‘
میگنیئر نے یہ بھی بتایا کہ دھماکے کیسے ہوئے
انھوں نے کہا ’’اسرائیلیوں نے جس طرح سے یہ کیا، اس سے پتا چلتا ہے کہ انھوں نے ان پیجرز کو ایررز (errors) والا ایک پیغام بھیجا تھا، تین مرتبہ کے ایررز۔ جس کی وجہ سے لوگوں نے اسے دیکھنے کے لیے اٹھایا اور آن کیا، جس سے پیجر وائبریٹ کرنے لگا۔ اور پھر پیجر پھٹ گیا۔ یہی وجہ ہے کہ 300 سے زیادہ لوگوں نے اپنے دونوں ہاتھ کھوئے اور بہت سے لوگوں کی ایک آنکھ یا دونوں آنکھیں ضائع ہوئیں، جب کہ 150 دیگر نے اپنے پیٹ کا کچھ حصہ کھو دیا۔‘‘
میگنیئر نے بتایا کہ تفتیش کار ان نتائج پر ان پیجرز کی مدد سے پہنچے جو کسی وجہ سے پھٹ نہیں پائے تھے۔ ’’اور ایسے ہزاروں موبائل تھے جو پھٹ نہیں سکے تھے، بہت سارے صرف جل گئے تھے اور کچھ پیجرز کا ٹرگر سسٹم فیل ہو گیا تھا، یہی وجہ ہے کہ تفتیش کار نقطے جوڑتے ہوئے تمام سسٹم کو سمجھ گئے۔
الجزیرہ کو ایک اور دفاعی محققق حمزے عطار نے بتایا کہ اس حملے کے ذریعے حزب اللہ کے سیکیورٹی سسٹم کو توڑا اور ناکام بنایا گیا ہے، حزب اللہ کے لیے یہ ایک پیچیدہ مسئلہ ثابت ہوا۔ انھوں نے کہا کہ یہ بنیادی طور پر مواصلات کا مسئلہ ہے، اور ایسے کئی امکانات موجود ہیں جو اس بات کی وضاحت کر سکتے ہیں کہ حملہ کیسے کیا گیا۔
انھوں نے کہا اسرائیل پیجرز کے سامان کو روکنے اور انھیں ہتھیار بنانے میں کامیاب ہوا، اس نے سپلائی چین میں کہیں کسی جگہ ڈیوائس کے اجزا میں سے ایک میں مداخلت کی، مائیکرو پروسیسرز کو نشانہ بنایا گیا اور انھیں ’’اوور لوڈ‘‘ کیا گیا، جس سے بیٹری اڑ گئی۔