اسلام آباد: پارلیمنٹ کے قانون سازی کے اختیار سے متعلق سپریم کورٹ کا اہم فیصلہ جاری کر دیا گیا، ٹیکس سے متعلق مقدمے میں 41 صفحات کا فیصلہ جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ کے تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ پارلیمان کا قانون سازی کا اختیار آئین میں دی گئی حدود کے تابع ہے، پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کو آرٹیکل 142 قانون سازی کا اختیار دیتا ہے، پارلیمنٹ ایسی قانون سازی بھی کر سکتی ہے جس کا ماضی سے اطلاق ہوتا ہو۔
تحریری فیصلے کے مطابق قوانین کا ماضی سے اطلاق ہونا آئین سے مشروط ہے، لفظ آئین سے مشروط کا مطلب واضح ہے کہ قانون سازی آئینی حدود کے مطابق ہی ممکن ہے، آئین پارلیمان پر پابندی عائد کرتا ہے کہ آرٹیکل 9 اور 28 میں دیے حقوق ختم نہیں کیے جا سکتے، آرٹیکل 12 کے مطابق فوجداری معاملات میں قوانین کے ماضی سے اطلاق نہیں ہو سکتا، صرف آئین شکنی سے متعلق فوجداری معاملے پر قانون سازی ماضی سے ہو سکتی ہے۔
’سول حقوق کو ماضی سے لاگو کرنے کا پارلیمان اور صوبائی اسمبلیوں کو اختیار نہیں۔ قانون کے ماضی سے اطلاق سے فریقین کے حقوق متاثر ہو سکتے ہیں۔ شہریوں کو موجودہ قوانین کا علم ہوتا ہے جس کے مطابق وہ امور انجام دیتے ہیں۔ مستقبل میں اگر کوئی قانون بنے تو اس کا ماضی کے اقدامات پر اطلاق کیسے ممکن ہے؟‘
اس میں مزید لکھا گیا کہ عدالتوں کو سمجھنا ہوگا قوانین کے ماضی سے اطلاق سے حتمی معاملات دوبارہ کھل سکتے ہیں، کسی قانون کی دو تشریحات ممکن ہوں تو وہی کرنی چاہیے جو لوگوں کے حقوق کا تحفظ کرے، جتنی زیادہ ناانصافی ہوگی مقننہ کا کردار بھی اتنا ہی واضح ہونا چاہیے۔
’عدالت ماضی میں قرار دے چکی کہ قانون میں ترمیم یا قانون ختم کرنا ایک ہی جیسا ہے۔ کوئی بھی ترمیم دراصل کسی نہ کسی انداز میں قانون یا کسی شق کا خاتمہ ہی ہوتا ہے۔ ماضی سے اطلاق صرف ان ہی قوانین کا ممکن ہے جو پہلے سے دیے حقوق کو ختم نہ کرے۔‘
عدالت نے سندھ ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے نجی کمپنیوں کی اپیلیں جزوی منظور کیں۔