بدھ, اکتوبر 2, 2024
اشتہار

فلسطین اور اسرائیل کے درمیان تنازع کی تاریخ

اشتہار

حیرت انگیز

فلسطین اور اسرائیل کے درمیان تنازع کی تاریخ تقریباً ایک صدی پرانی ہے 76 سال قبل فلسطین پر قابض ہونے کے بعد اس کے مظالم کا سلسلہ دراز ہوتا جا رہا ہے۔

اگر ہم فلسطین اور اسرائیل کے درمیان تنازع پر نظر دوڑائیں تو لگ بھگ ایک صدی پیچھے جانا پڑے گا جب پہلی جنگ عظیم سے قبل فلسطین پر سلطنت عثمانیہ کا کنٹرول تھا۔ اس وقت یہاں مسلمانوں کا اکثریت تھی جب کہ مسیحی اور یہودی اقلیت میں تھے۔

پہلی جنگ عظیم کے بعد خطے کا کنٹرول فرانس اور برطانیہ کے پاس چلا گیا اور دونوں ممالک نے اس خطے کو آپس میں تقسیم کر لیا۔ فلسطین کا کنٹرول برطانیہ کے پاس آیا۔

- Advertisement -

برطانیہ کے زیر تسلط آنے کے بعد فلسطین میں یورپی سے یہودیوں کی بڑی تعداد آ کر آباد ہونے لگی اور اس وقت مقامی عرب آبادی اور یہودیوں کے درمیان تنازعات کا آغاز ہوا۔

برطانیہ نے اس وقت فلسطین میں یہودیوں کے لیے ایک علاقہ مخصوص کیا۔ اس دوران یورپ میں صیہونی تحریک بھی زور پکڑ رہی تھی، جس کا اپنا نظریہ یہ ہے کہ یہودیوں کی اپنی ایک ریاست ہو۔

1920 سے 1940 کے درمیان فلسطین میں یہودیوں کی آبادی بڑھنے لگی۔ دوسری عالمی جنگِ عظم کے بعد ہولوکاسٹ سے جان بچا کر یہودیوں کی بڑی تعداد یہاں پہنچی۔

یہودیوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ قائم برطانوی حکومت اور مقامی عرب آبادی کے درمیان کشیدگی بڑھنے لگی۔ صیہونی تنظیموں نے عسکری گروہ قائم کر لیے، جنہوں نے دوسری جنگ عظیم کے بعد الگ ریاست کے لیے دباؤ بڑھانا شروع کر دیا۔

1947 میں اقوام متحدہ نے ووٹنگ کے ذریعے فیصلہ کیا کہ فلسطین کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کیا جائے۔ اس کے ایک حصے میں یہودی ریاست (اسرائیل) ہو اور دوسرے حصے میں ایک عرب ریاست جبکہ یروشلم (بیت المقدس) ایک بین الاقوامی شہر ہوگا۔

اقوامِ متحدہ کے اس منصوبے کو یہودیوں نے تو قبول کر لیا، لیکن آس پاس کی عرب ریاستوں نے فیصلے کو یورپی کلونیل ازم کے طور پر دیکھا۔

14 مئی 1948 کو اسرائیل کا قیام عمل میں آیا، تو اگلے ہی دن اردن، مصر، شام اور عراق نے حملہ کر دیا۔ یہ پہلی عرب اسرائیل جنگ تھی اور اس جنگ کو نقبہ بھی کہا جاتا ہے۔

اس جنگ کے باعث ساڑھے سات لاکھ فلسطینی خود ہجرت کر کے ہمسایہ ممالک جا پہنچے یا انہیں اسرائیلی فوجیوں نے بے دخل کر دیا اور یوں فلسطینیوں کے لیے ایک سانحے نے جنم لیا۔

یہ جنگ اسرائیل نے جیتی اور اس طرح اسرائیل کے قبضے میں وہ علاقہ بھی آ گیا اور یہ اقوام متحدہ کے بتائے گئے علاقے سے زیادہ تھا۔ اسرائیل کو اب تقریباً پورے فلسطین پر کنٹرول حاصل ہو گیا سوائے غزہ اور مغربی کنارے کے۔

غزہ مصر کے کنٹرول میں تھا اور مغربی کنارے اردن کے۔ یہ شروعات تھیں، کئی دہائیوں پہلے عرب اسرائیل تنازع کی۔ اس دوران عرب ممالک سے کئی یہودی اسرائیل آ گئے۔

1967 کی عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان ایک اور جنگ کا آغاز ہوا، جس کے نتیجے میں اسرائیل کے پاس شام سے گالان ہائیٹس اردسن سے مغربی کنارہ اور مصر سے غزہ اور سینائی کا کنٹرول آگیا۔

فلسطین کے علاقے پر جب اسرائیل کو کنٹرول ہوا، تو وہ ساتھ ہی وہاں بسنے والے فلسطیینیوں پر بھی حکومت کرنے لگا، جس سے وہ کئی دہائیوں سے لڑ رہا تھا۔

1973 میں مصر اور شام نے اسرائیل پر اپنے علاقے چھڑانے کے لیے حملہ کیا، جسے ’یوم کپور‘ جنگ کہا جاتا ہے۔ 6 سال بعد اسرائیل اور مصر نے امن کا معاہدہ کر لیا اور سینائی مصر کو واپس لوٹا دیا گیا۔ اردن نے بھی کچھ عرصہ بعد اسرائیل کو تسلیم کر لیا۔

2005 میں غزہ کی پٹی سے فوجیں نکالنے کے باوجود اسرائیل اب بھی مغربی کنارے پر قابض ہے تاہم اقوام متحدہ آج بھی اس علاقے کو مقبوضہ مانتا ہے۔

اسرائیل پورے بیت المقدس کو اپنا دارالخلافہ مانتا ہے جبکہ فلسطینی مشرقی بیت المقدس کو فلسطینی ریاست کا دارالحکومت مانتے ہیں۔

گزشتہ پچاس برسوں میں اسرائیل نے مغربی کنارے اور مشرقی بیت المقدس میں اپنی یہودی بستیاں آباد کر لی ہیں، جہاں تقریبا 6 لاکھ یہودی آباد ہیں اور بین الاقوامی قوانین کے مطابق یہ بستیاں غیر قانونی ہیں۔

2007 میں غزہ کا اقتدار فلسطینی عسکریت گروپ حماس نے سنبھالا، جس کے بعد سے ہی اسرائیل نے مصر کی مدد سے غزہ کی پٹی کا محاصرہ کر رکھا ہے، تاکہ حماس کو آئسولیٹ کر سکیں۔ اقتدار سنبھالنے سے اب تک حماس، اسرائیل کے ساتھ متعدد جنگیں لڑ چکا ہے۔

مشرق وسطیٰ کے اس طویل اور خونی تنازع کو دہایاں گزر چکی ہیں اور فی الوقت اس کا مستقبل قریب میں بھی کوئی مستقل حل ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔

ترک صدر نے ’’گریٹر اسرائیل‘‘ منصوبہ بے نقاب کر دیا

واضح رہے کہ غاصب اسرائیل کے غزہ کے مظلوم مسلمانوں پر یوں تو 76 سال سے مظالم کا سلسلہ جاری ہے تاہم ایک سال سے مسلسل بربریت نے غزہ کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا ہے۔

اسرائیل کے وحشیانہ حملوں میں ایک سال کے دوران محتاط اندازے کے مطابق 40 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہوچکے ہیں جن میں خواتین اور بچوں کی تعداد زیادہ ہے جبکہ اس سے کہیں زیادہ زخمی اور لاپتہ ہیں۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں