بدھ, اکتوبر 9, 2024
اشتہار

آئینی ترامیم کیلیے ہمارے بندے ان کے ہاتھ نہیں آئیں گے، چیئرمین پی ٹی آئی

اشتہار

حیرت انگیز

اسلام آباد: چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) بیرسٹر گوہر خان کا کہنا ہے کہ آئینی ترامیم کیلیے ہمارے بندے ان کے ہاتھ نہیں آئیں گے۔

اے آر وائی نیوز کے پروگرام ’آف دی ریکارڈ‘ میں بیرسٹر گوہر خان نے کہا کہ اس ملک میں جتنی آئینی ترامیم ہوئیں کسی حکومت کے پاس دوتہائی اکثریت نہیں تھی، 1984 کے بعد کسی جماعت کے پاس دوتہائی اکثریت نہیں آئی۔

بیرسٹر گوہر خان نے کہا کہ آئینی ترامیم کیلیے حکومت کی ٹائمنگ درست نہیں، یہ ججز کے تبادلے کیلیے جو آئینی ترامیم لانا چاہتے ہیں عدلیہ پر حملہ ہوگا، آئینی ترامیم کے ذریعے یہ عدلیہ کو آئسولیٹ کرنا چاہتے ہیں، آئینی ترامیم کیلیے اس حکومت کے پاس مینڈیٹ نہیں ہے۔

- Advertisement -

انہوں نے کہا کہ پہلے دن سے ہمارا مؤقف یہی ہے کہ آئینی ترامیم کا مسودہ ہمارے سامنے نہیں، ہفتے کو پارلیمانی کمیٹی میں وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے آئینی ترامیم پر بریفنگ دی جب ہم نے کہا کہ تحریری مسودہ دیں جو ان کے پاس نہیں تھا۔

چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ آئینی ترامیم پر حکومت کو غلط فہمی ہو رہی ہے، جس وقت یہ ووٹنگ کیلیے بلائیں گے ان کے اپنے بندے ووٹ نہیں دیں گے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ خیبر پختونخوا اور پنجاب سے حکومت کے ایم این ایز کہہ رہے ہیں کہ ضمیر کے مطابق ہی ووٹ دیں گے۔

پروگرام میں انہوں نے کے پی ہاؤس اور علی امین گنڈاپور کے ’غائب‘ ہونے پر کہا کہ میرے پاس خبر آئی کہ کے پی ہاؤس کو پولیس نے گھیر لیا ہے، تمام راستے بند تھے اور ہر طرف کنٹینر تھے مگر میں وہاں پہنچ گیا، لوگ حالات اور صورتحال دیکھ کر ایک بیانیہ بناتے ہیں، بدقسمتی ہے صوبے کا وزیر اعلیٰ 6 گھنٹے سامنےنہیں آ رہا تو وہ کہاں ہے؟ ایسی صورتحال میں علی امین گنڈاپور سے متعلق پارٹی رہنما اغوا کے علاوہ کیا بات کرتے؟

بیرسٹر گوہر خان نے کہا کہ ہاؤس میں فیملیز رہتی ہیں صحافی بھی وہاں موجود تھے، میں وہاں گیا تو عملے اور پولیس سے ملاقات ہوئی لیکن علی امین گنڈاپور سے ملاقات نہیں ہوئی تھی، پولیس انہیں ایسے ڈھونڈ رہی تھی جیسے وہ وہاں موجود ہیں، وہاں سے نکل کر مارگلہ ہاؤس گیا تو دروازے بند تھے پھر میں دوبارہ ہاؤس آگیا جہاں باہر نکلنے کی درخواست کی تو اسسٹنٹ کمشنر نے راستہ دیا۔

انہوں نے کہا کہ تیسری بار ہاؤس گیا تو حامد رضا اور فردوس شمیم ساتھ تھے، کے پی ہاؤس میں صرف عملے سے بات ہوئی کسی افسر سے نہیں، علی امین گنڈاپور کے پروٹوکول سے پوچھا تو پتا چلا وہ وہاں سے چلے گئے، کسی کو نہیں معلوم تھا وہ ہاؤس کے اندر تھے یا باہر۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعلیٰ کا پتا نہ ہو کہ وہ اندر ہے یا نہیں تو سیاسی جماعت کیا بیانیہ دے گی؟ ہاؤس صوبے کی ملکیت ہے اس کی حیثیت سفارتخانے جیسی ہوتی ہے، ماضی میں سندھ ہاؤس میں جو کوئی گیا تو یہاں ایسا نہیں ہونا چاہیے، پولیس کو ہاؤس میں نہیں جانا چاہیے تھا اور علی امین گنڈاپور کے باہر آنے کا انتظار کرنا چاہیے تھا۔

چیئرمین پی ٹی آئی نے مزید کہا کہ اسلام آباد سے نکلنے کیلیے علی امین گنڈاپور کو محفوظ راستہ چاہیے تھا، ان کو خطرات ہیں بطور وزیر اعلیٰ کے پی پولیس سے ہی سکیورٹی مانگیں گے، انہوں نے عقلمندی سے محفوظ راستہ اپنایا، ان کیلیے ریڈ زون سے نکل کر جانے کیلیے کسی کو نہ بتانا زیادہ محفوظ تھا۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں